گندم خریداری مہم، کسان اور بیوپاری
گندم خریداری مہم اپنے آخری مراحل سے گزر رہی ہے۔حکومت پنجاب نے 40لاکھ ٹن گندم خریدنے کے لیے 130ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی تھی۔خریداری مہم کی قومی اخبارات کے ذریعے وسیع پیمانے پر تشہیر کی گئی جس میں چھوٹے کسانوں کو ترجیحی بنیادوں پر گندم خریدنے اور عام کسانوں کی سہولت کے لیے کیے گئے ہرممکن اقدامات کا پر زور دکر تھا۔اس کے علاوہ محکمہ خوراک و محکمہ زراعت کے وزراء کے بیانات بھی اخبارات کی زینت بنتے رہے جن میں گندم خریداری مہم سے پٹوار کلچر اوربیوپاری کے خاتمے سمیت کسانوں سے گندم کا آخری دانہ تک خریدنے کا بطور خاص ذکر تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان تمام ترکاوشوں کے باوجود یہ نظام عام کسانوں کو سہولت فراہم کرنے میں کامیاب ہو سکا یا نہیں۔ اسی سوال کی بازگشت گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں بھی سنائی دی۔ عوامی نمائندوں نے سسٹم کی شفافیت اور مفاد پرست بیوپاریوں کی ریشہ دوانیوں پر کئی ایک سوالات اٹھائے۔ ایک نمائندے نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایم پی ہونے کے باوجود اسے اپنی ذاتی گندم بیوپاری کے ہاتھ 1030 روپے فی من کے حساب سے بیچنا پڑی ہے۔ اگر حالات واقعی ایسے ہیں تو پھر ایک عام کسان کے بارے میں...