جنیاں تن میرے نوں لگیاں ۔ ۔ ۔ ۔ تینوں اک لگے تے توں جانے

حد یہ ہے کہ ہسپتال میں کوئی ڈاکٹرڈیوٹی پر نہیں تھا۔
اور مریضوں کا علاج معالجہ کمپاونڈروں اور نرسوں کے سپرد تھا۔
میں، مریض کے پہنچنے کے کوئی دس منٹ بعد ہسپتال پہنچا تھا۔
ایمر جنسی وارڈ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک کمپاونڈر مریض کو گلوکوز کی بوتل لگانے کی کوشش میں ہے۔ ایک نرس بھی ساتھ کھڑی ہے۔
ایمر جنسی بستروں پر دو تین اور مریض لیٹے ہوئے تھے جو ہلکی پھلکی چوٹوں کے باعث ہسپتال آئے تھے۔
آپ جتنی جلدی ہو سکے مریض کووکٹوریہ ہسپتال بہاول پور لے جائیں۔
کمپاونڈر نے بغیر وقت ضائع کئے یہ الفاظ اگل دیے۔
میں نے اور میرے چھوٹے بھائی نے مایوسی کے عالم میں ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
سر میں شدید چوٹ کے باعث مریض زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا۔ 
یہ میرا بڑا بھائی تھا ۔ ۔ ۔ ۔ سگا بھائی ۔ ۔ ۔ ۔ 
دو گھنٹے کا سفر طے کر کے اسے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال چشتیاں لایا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ 
اور اب یہاں سے بہاول پور کا اذنِ سفر تھا۔ 50 کلومیٹر کے بعد مزید 150 کلومیٹر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  یعنی دو گھنٹے کی مسافت کے بعد  مزید تین گھنٹے کی مسافت۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سوال یہ ہے کہ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات ہماری ترجیحات میں کب آئیں گی۔ 
 کیا پاکستان میں زیادہ سے زیادہ تیس منٹ کی مسافت پرصرف ایک ایسا ہسپتال نہیں بن سکتا جہاں انتہائی نگہداشت کی سہولیات ہوں۔ 
میں نے کمپاونڈر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
کیا کوئی فرسٹ ایڈ ہو سکتی ہے؟
بس یہی کچھ ہے۔ ۔ ۔ ہاں دیکھ لیں اگر ایول کا انجکشن مل جائے تو؟
ایول ۔ ۔ ۔ ۔ ایول ۔ ۔ ۔ ایول ۔ ۔ ۔
میں نے دیر تک اس لفظ کی بازگشت اپنے کانوں میں محسوس کی۔ 
اس لفظ کی میری زندگی میں بڑی اہمیت ہے۔
میں ابھی میٹرک کے پیپروں سے فارغ ہوا ہی تھا کہ میرے والد بزرگوار پر بظاہر مرگی کا حملہ ہوا۔ مکمل بے ہوشی کی حالت میں انہیں بہاول پور وکٹوریہ ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
معلوم ہوا کہ انہیں بے ہوشی کا طویل دورہ برین ٹیومر کی وجہ سے ہے۔ 
انہی دنوں میں ایول کے لفظ سے متعا رف ہوا تھا۔
والد مرحوم کو ایول کے علاوہ کئی انواع و اقسام کے انجکشن لگائے جاتے رہے لیکن وہ اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکے۔
ایول کا نام سنتے ہی میں ایمرجنسی سے باہر کی طرف بھاگا۔ 
معلوم ہوا کہ یہاں جتنے بھی مڈیکل سٹور ہیں ہسپتال کی حدود سے باہر ہیں۔ 
یہ عید سے اگلا دن تھا ۔ ذیادہ تر میڈیکل سٹور بند تھے۔ انتہائی کوشش کے باوجود میں ایول کا انجکشن ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔
میں نے ہسپتال کے عملے سے ایول کے متعلق درخواست کی۔ معلوم ہوا کہ ہسپتال کے سٹاک میں یہ انجکشن موجود نہیں ہے۔
اگر یہ زندگی بچانے والی دوا ہے تو پھر سرکاری ہسپتال میں کیوں نہیں ہے؟ ریاستوں کا اپنے ہسپتالوں میں زندگی بچانے والی ادویات فراہم نہ کرنا عالمی قوانین کے مطابق ناقابلِ تلافی جرم ہے۔ 
لیکن پنجاب کی سرزمین میں عوام کی خدمت کے نعروں کا اس قدر شور ہے کہ اس طرح کی چھوٹی موٹی آوازیں شہروں کی حدیں پار نہیں کر پاتیں۔
نتیجتا بغیر انتہائی اہم فرسٹ ایڈ کے ہم وکٹوریا ہسپتال روانہ ہوئے۔ 
سرکاری ایمبولینس (جس کا ہم نے کرایہ ادا کرنا تھا) نے ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر 150 کلومیٹر کا سفر تین گھنٹے میں طے کیا۔ 
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پچھلے دس سال میں سب سے ذیادہ سرمایہ سڑکوں پر لگایا جا رہا ہے تو اتنی اہم شاہراہ ٹوٹی پھوٹی کیسے ہو سکتی ہے۔ 
تو جناب ہم جنوبی پنجاب والے ہیں۔ 
فصل گل کے آخر میں پھول جن کے کھلتے ہیں۔
جن کے صحن میں سورج دیر سے نکلتے ہیں۔
شہربہاول پور کے فرید گیٹ سے گزرے تو ہمسفر نے کہا ٹھیک ایک منٹ کے بعد ہم وکٹوریہ ہسپتال کی ایمرجنسی میں ہوں گے۔ 
ایمرجنسی میں پہنچے تو مسیحائی کی تمام امیدیں دم توڑنے لگیں۔
ایمر جنسی میں مریضوں کا جمعہ بازار لگا ہوا تھا۔ اور دو جونئر ڈاکٹر چند نرسوں کے ہمراہ ایک سٹریچر سے دوسرے سٹریچر کی طرف بھاگتے پھر رہے تھے۔
یہاں مجھے ایک داڑھی والے ڈاکٹر کو شاباش دینا پڑے گی جس نے انتہائی جانفشانی سے مریضوں کو سنبھالا ہوا تھا۔
زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن کیا سرکار کو اپنے ہسپتالوں کی دگرگوں حالت کا کچھ علم ہے؟
میں سمجھتا ہوں اگر حکومت ذرا سی بھی توجہ دے تو اس ملک میں انسانی ہمدردی کا جذبہ رکھنے والے لوگوں کی کمی نہیں۔ اس موقع پر مجھے نشتر ہسپتال کا ایک نوجوان ڈاکٹر یاد آ رہا ہے جس نے خالی بوتلوں سے اپنی مدد آپ کے تحت  آکسیجن دینے کا آلہ بنا رکھا تھے۔ آکسیجن دینے کا وہ آلہ خدمت کے نعرے لگانے والوں کا منہ چڑا رہا تھا۔
 واقعہ یہ ہے کہ جنوبی پنجاب کا یہ وکٹوریہ ہسپتال تقریبا 40 ہزار مربع کلومیٹر(پنجاب کا تقریبا 1/5 واں حصہ) کےعلاقے میں واحد ہسپتال ہے جہاں سمجھا جاتا ہے کہ یہاں سنجیدہ نوعت کے مریضوں کا علاج معالجہ ہو سکتا ہے۔
(یہ ہسپتال میرے گاوں سے 2 سو کلومیٹر دور ہے)
اتنے بڑے جغرافیائی علاقے سے آنے والے مریضوں کی نسبت سے یہ ایمرجنسی انتہائی ناکافی ہے۔ کم از کم اس دن تو یہی صورت حال تھی۔
میری خواہش تھی کہ کسی سینئر ڈاکٹر سے مشورہ کیا جائے کیونکہ مریض کی سانس اکھڑ رہی تھی اور زندگی کی امید دم توڑ رہی تھی۔ انتہائی کوشش اور اونچی سفارش کے بعد سینئر ڈاکٹر ایمر جنسی میں تشریف لائے۔ مریض پر ایک نظر ڈالی اور مذید انتظار کا مشورہ دے کر چلے گئے۔ ان کے مطابق جب تک مریض کی سانس بحال نہیں ہوتی مزید کوئی طبی کاروائی نہیں ہو سکتی۔
رات کے دو بج چکے تھے۔ مریض کو پچھلے 4 گھنٹے سے ایمرجنسی وارڈ میں ہی رکھا گیا تھا۔ نامعلوم اس میں کیا مصلحت تھی۔ ویسے بھی ہم زراعت پڑھنے والے کیا جانیں کہ طب کی نزاکتیں کیا ہوتی ہیں۔ اور یوں بھی پودے کے مرنے اور انسان کے مرنے میں بڑا فرق ہے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
اس ساری کاروائی میں جو کام سب سے زیادہ مستعدی سی کیا گیا وہ ہسپتال کے رجسٹر اموات میں مرنے والے کا اندراج تھا۔ عملے نے دستخط لینے کے بعد میت ورثا کے حوالے کر دی۔
سٹریچر کھینچ کے ایمرجنسی سے باہر لایا گیا تو چھ سات لوگ سٹریچر کی طرف لپکے۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمبولینس ۔ ۔ ایمبولینس ۔ ۔ ۔ ایمبولینس۔ ۔ ۔ ۔
میں نے چوٹے بھائی کو اشارہ کیا کہ وہ ان ڈرائیور حضرات سے بات چیت کرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چھ ہزار ۔ ۔ ۔ پانچ ہزار ۔ ۔ ۔ ساڑھے چار ہزار ۔ ۔ ۔
مختلف آوازیں میرے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔
ایک عرض کروں؟
اگر اور کچھ نہیں ہو سکتا تو کم از کم پنجاب حکومت ہسپتال سے لاشیں گھر بھجوانے کا ہی مفت انتظام کر دیا کرے۔
ویسے جس صوبے میں دو تین ارب کی سبسڈی میٹرو بسوں پر لگائی جا رہی ہو وہاں یہ مطالبہ کوئی ایسا بے جوڑ بھی نہیں۔
میرا خیال ہے کہ اس کام کے لئے تو شائد پچاس کروڑ بھی زیادہ پڑ جائیں۔
خادم اعلی صاحب ۔ ۔ ۔ صرف پچاس کروڑ ۔ ۔ ۔ اتنی رقم کی اوقات ہی کیا ہے۔
پچپن کروڑ تو آپ نے گزشتہ برس خدمتی اشتہاروں میں جھونک دئے ہیں۔
جنیاں تن میرے نوں لگیاں ۔ ۔ ۔ ۔ تینوں اک لگے تے توں جانے   

Comments

  1. I can not express my feelings in words dear Sir after reading this article......

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

دنیا میں آلوؤں کی 5000 اقسام پائی جاتی ہیں

دھان کی پیداوار 150 من فی ایکڑ مگر کیسے؟