Posts

Showing posts from September, 2017

خیبر پختونخواہ میں تمباکو کاشت کرنے والے کسانوں نے احتجاج کا اعلان کر دیا ہے

خیبر پختونخواہ میں تمباکو کاشت کرنے  والے کسانوں نے بالآخر  تنگ آ کر سڑکوں پر آنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر تین دن میں ہمارے مطالبات تسلیم نہ  کئے گئے تو دما دم مست قلندر ہو گا۔  دراصل بات یہ ہے کہ باہر کی کمپنیاں کسانوں کو خراب کر رہی  ہیں۔ اور ان کی تمباکو کی فصل باوجود معاہدوں کے نہیں خرید  رہیں۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ اول تو ہمارے مطالبے کے بر عکس  178  روپے فی کلو گرام کے حساب سے تمباکو کی قیمت مقرر کی گئی ۔  اور دوسرے اب اس کم قیمت میں بھی کمپنیاں کسانوں کا  تمباکو خریدنے سے لیت ولعل سے کام لے رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کمپنیاں حکومتی دائرہ کار میں نہیں  آتیں؟  اگر آتی ہیں تو پھر کون ہے جو ان کو کسانوں نے استحصال کی  اجازت دے رہا ہے۔ حکومت سے درخواست ہے کہ کسانوں کے مطالبات کا نوٹس لے  اور ان کمپنیوں کو من مانی سے روکے۔   

آبیانہ اگلے سال سے بڑھا دیا جائے گا

حکومتِ پنجاب نے ورلڈ بنک کو یقین دہانی کروا دی ہے کہ    کاشتکاروں  سے لیا جانے والا آبیانہ آئندہ سال سے بڑھا دیا جائے  گا۔ یہ آبیانہ آئندہ 5 سال تک 20 فی صد سالانہ کے حساب سے  بڑھایا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ نے اس سال 1000 روپیہ آبیانہ  دیا ہے تو وہ اگلے سال یعنی 2018 میں 1200 روپے ہو جائے  گا۔ اسی طرح یہ آبیانہ 2019 میں 1400، 2020 میں 1600،  2021 میں 1800 اور 2022 میں دو گنا یعنی 2000 روپے ہو  جائے گا۔ ورلڈ بنک نے  حکومتِ پنجاب  کو سمارٹ پراجیکٹ میں پیسے دینے کے  کئے یہ   شرط رکھی تھی جسے اطلاعات کے مطابق حکومت نے     قبول کر لیا   ہے۔      تحریر: ڈاکٹر شوکت علی

گنم خریداری بند ۔ ۔ ۔ حکومت کا عالمی بنک سے معاہدہ

 حکومت پنجاب ہر سال  گندم کے کاشتکاروں سے  کٹائی کے وقت  گندم خرید تی  ہے جس کے لئے پورے پنجاب میں گندم خریداری  سنٹر  بنائے جاتے ہیں ۔ لیکن حکومت اب یہ خریداری بند کرنے والی ہے۔ حکومتِ پنجاب، ورلڈ بنک کے ساتھ ایک معاہدے میں گندم  خریداری بند کرنے پر رضا مندہو گئی ہے۔   اس معاہدے کے مطابق  2019 میں حکومت، گندم کی خریداری  کی  بند کرنے کا سرکاری طور پر اعلان کر دے گی۔  اور 2021 تک حکومت  60 لاکھ ٹن کی بجائے صرف 10 لاکھ  ٹن گندم خریدا کرے گی۔ اس معاہدے سے ایک طرف  کاشتکار  بیوپاریوں اور آٹا ملوں والوں  کے رحم   و کرم پر ہوں گے تو دوسری طرف گندم کی کمی ہونے  کی صورت   میں حکومت کے پاس گندم کا سٹاک بھی نہیں ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں کسانوں کو اعتماد میں لے  کرمناسب وضاحت جاری کرے تاکہ کاشتکاروں میں پائی جانے  والی تشویش کم ہو سکے۔ تحریرِ نو: ڈاکٹر شوکت علی 

کیا جٹروفا کے پودے کی کاشت پنجاب میں ہو سکتئ ہے۔

ایک کاشتکار نے "جٹروفا" کی کاشت کے  حوالے سے  اپنی دکھ  بھری   کہانی  شیئر کی ہے (جو اس خبر کے نیچے درج ہے) کہ جڑوفا  کی  کاشت کے حوالے اسے کس طرح  دھوکہ دیا گیا۔ واضح رہے کہ جٹروفا  بیرونِ ملک سے لایا گیا ایک پودا ہے جس  کے بیجوں سے  نکلنے والے تیل سے کوئی بھی انجن چلایا جا سکتا ہے۔ ایگری اخبار  نےجٹروفا پر تحقیق کرنے  والے بہا ولپور میں واقع   زرعی تحقیقاتی ادارے ایرڈ زون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (پاکستان  ایگری کلچرل   ریسرچ کونسل)  سے رابطہ کیا  ہے۔ ادارے کا  موقف درج کیا جاتا ہے   تاکہ کسان بھائی کسی بھی نرسری والے  سے دھوکا نہ کھائیں۔ ادارے کے مطابق پنجاب کی آب و ہوا میں جٹروفے کا ایک پودا  دو سال میں صرف ایک  کلو بیج    پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔   اس طرح ایک ایکڑ میں موجود 280 پودوں سے حاصل ہونے  والے  سات من بیج  سے تقریبا تین من   تیل نکل سکتا ہے۔ جو  کسان کو 250  روپے فی لیٹر کے حساب سے پڑتا ہے۔جو کسی  بھی حوالے سے منافع بخش نہیں ہے۔  اس طرح ادارہ جٹروفے کی  کاشت کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کرتا ہے۔  ادارے کے مطابق  ح

کینولا کی فصل کاشت کر کے حکومتِ پنجاب سے 5000 فی ایکڑ کے حساب سے رقم لیں

آپ کینولا کی فصل کاشت کر کے حکومتِ پنجاب سے 5000 فی  ایکڑ کے حساب سے رقم لے سکتے ہیں۔ صوبہ پنجاب کا ہر  کاشتکار اس سکیم کے تحت زیادہ سے زیادہ 10  ایکڑ کینولا کاشت کر کے 50 ہزار روپے تک رقم حاصل کر سکتا ہے۔ رقم حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے آپ کو رجسٹریشن کروانا  ہو گی۔ رجسٹریشن کیسے ہو گی؟ رجسٹریشن کے لیے دیے گئے نمبروں میں سے کسی پر کال کریں۔  0800-29000 اور 15000-0800 یہ کال مفت ہو گی۔ دیا گیا نمبر ڈائل کرنے سے پہلے کسی طرح کا  کوڈ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوپن والا تھیلا کہاں سے ملے گا؟ اس کے بعد آپ کینولا کے بیج کا تھیلا خریدیں گے ۔ یہ  تھیلا کوپن والا ہو نا چاہیے۔  کوپن ابھی تک  صرف آئی  سی آئی سیڈ کمپنی اور جالندھر سیڈ کمپنی کے تھیلوں میں ہی مل رہا  ہے ۔بغیر کوپن والا  تھیلا اگر آپ نے خرید لیا تو رقم نہیں ملے گی۔ کوپن تھیلے سے آدھا باہر اور آدھا اندر سلا ہوا ہو گا۔ رقم کب اور کیسے ملے گی؟ کوپن کو نکال کر  سکریچ کریں ۔  اس کے بعد اس سکریچ شدہ کارڈ  کا نمبر  اور اپنا ذاتی شناختی کارڈ نمبر  8070 پر ایس ایم ایس

روئی کی درآمد کے لئے بارڈر کھلے رکھیں کھینچا تانی شروع

عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ ٹیکسٹائل ملوں والے ہمیشہ سے ہی  کپاس  یا روئی کی   درآمد کے لئے پاکستانی بارڈر کھلے رکھنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں ۔ تاکہ  اگر پاکستان میں پھٹی کی قیمتیں بڑھنے لگیں تو عالمی منڈی   (جس میں انڈیا بھی شامل ہے)   سے   ممکنہ طور پر سستی کپاس یا  روئی خریدی جا سکے۔  صاف ظاہر   ہے کہ   اس عمل سے  ہمیشہ   کسان ہی خسارے میں رہتا ہے۔ بارڈر کھلا رکھوانے کے لئے جو دلیلیں دی جاتی ہیں ان میں سے  ایک یہ ہے کہ پاکستان میں کپاس کی پیداور کم ہوئی ہے لہذا  طلب پوری کرنے کے لئے بارڈر کھول دیا جائے۔ لیکن اس سال پاکستان میں کپاس کی  پیداوار  گزشتہ سال سے   کم از کم  20 فی صد زائد ہو نے کی توقع ہے۔ جس پر حکومتِ  پنجاب نے وفاق   سے مطالبہ کیا ہے کہ کپاس کی درآمد پر پابندی  عائد کی جائے۔ اس  پر  ٹیکسٹائل انڈسٹری کا کیا موقف سامنے آتا ہے آنے والے  دنوں میں واضح ہو جائے گا۔ البتہ جننگ انڈسٹری نے اس مطالبے کی محالفت کر دی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر شوکت علی

پنجاب میں زرعی ترقی کے لئے وقف رقم سے 22 گنا بڑی رقم کے جانور پاکستان میں قربان کئے گئے۔

آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ پاکستان میں اس عید پر 460  ارب کے ایک کروڑ 30 لاکھ جانور قربان کئے گئے۔ اگر اس رقم کا موازنہ صوبہ پنجاب میں رواں سال (18-2017)  زرعی ترقی کے لئے مختص    رقم (21 ارب) کے ساتھ کیا جائے تو  یہ بائیس گنا بڑی رقم ہے۔   واضح رہے کہ صوبہ پنجاب کا تمام تَر ترقیاتی بجٹ  637 ارب ہے۔ مزید یہ کہ کھال کے تاجروں نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ناتجربہ  کار  قصائیوں اور کھال کی دیکھ بھال کے حوالے  سے عدم آگاہی  کی وجہ سے 6 سے 7 ارب روپے کی کھالیں ضائع ہو سکتی ہیں۔  لہذا ضروری ہے کہ ہر عید الاضحیٰ سے پہلے کھالوں کی دیکھ بھال  کے لئے آگاہی مہم چلائی جائے۔ تحریر: ڈاکٹر شوکت علی

کپاس کے کاشتکاروں کے لئے خوشخبری

اچھی خبر یہ ہے کہ چین کے  پاس کپاس کا سٹاک ختم ہو گیا ہے  اور اس نے پاکستان سے کپاس خریدنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چین پاکستان کی طرف اس لئے بھی دیکھ رہا ہے کہ پاکستان میں   آج کل کپاس کی قیمتیں    عالمی منڈی کی نسبت خاصی گِری ہوئی  ہیں۔ چین کی اس خریداری  سے   پاکستان میں کپاس کی   قیمتیں اگر زیادہ  نہ بھی بڑھیں تو   یقینی طور پر    عالمی منڈی کے برابر ضرور آ جائیں  گی۔ البتہ چین کا یہ قدم  جننگ و ٹیکسٹائل مل مالکان کے لئے پریشانی کا  باعث ہو سکتا ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ آنے والے دنوں میں یہ طبقہ  کیا حکمتِ علمی اختیار کرتا ہے۔ تحریر نو: ڈاکٹر شوکت علی