کیا جٹروفا کے پودے کی کاشت پنجاب میں ہو سکتئ ہے۔

ایک کاشتکار نے "جٹروفا" کی کاشت کے  حوالے سے  اپنی دکھ

 بھری  کہانی  شیئر کی ہے (جو اس خبر کے نیچے درج ہے) کہ جڑوفا 

کی کاشت کے حوالے اسے کس طرح دھوکہ دیا گیا۔

واضح رہے کہ جٹروفا  بیرونِ ملک سے لایا گیا ایک پودا ہے جس 

کے بیجوں سے نکلنے والے تیل سے کوئی بھی انجن چلایا جا سکتا ہے۔

ایگری اخبار  نےجٹروفا پر تحقیق کرنے  والے بہا ولپور میں واقع 

 زرعی تحقیقاتی ادارے ایرڈ زون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (پاکستان 

ایگری کلچرل  ریسرچ کونسل)  سے رابطہ کیا  ہے۔ ادارے کا 

موقف درج کیا جاتا ہے  تاکہ کسان بھائی کسی بھی نرسری والے 

سے دھوکا نہ کھائیں۔

ادارے کے مطابق پنجاب کی آب و ہوا میں جٹروفے کا ایک پودا 

دو سال میں صرف ایک  کلو بیج   پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔  

اس طرح ایک ایکڑ میں موجود 280 پودوں سے حاصل ہونے 

والے  سات من بیج  سے تقریبا تین من  تیل نکل سکتا ہے۔ جو 

کسان کو 250  روپے فی لیٹر کے حساب سے پڑتا ہے۔جو کسی  بھی

حوالے سے منافع بخش نہیں ہے۔  اس طرح ادارہ جٹروفے کی 

کاشت کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ 


ادارے کے مطابق  حکومتِ پنجاب بھی جٹروفا کی کاشت کے فروغ 

میں دلچسپی رکھتی تھی جسے مکمل حقائق سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔

البتہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جٹروفاکے تیل سے انجن 

نہیں چلتا تو اس بارے میں عرض ہے کہ اس تیل سے انجن، پیٹر 

انجن وغیرہ چلایا جا سکتا ہے جسے ادارے نے تجرباتی طور پر خود 

بھی آزمایا ہے۔ 

اب آخری بات یہ ہے کہ نرسری مالکان اپنے طور پر اسے اس 

لئے تیار کر رہے ہیں کہ یہ نہائت آسانی سے انتہائی سستی قیمت 

پر تیار ہو جانے والا پودا ہے جسے وہ لوگوں کو سبز باغ دکھا کر 

مہنگے داموں بیچ رہے ہیں۔ اس لئے کسان بھائیوں کا چاہیے کہ وہ  

ہرگز اس طرح کے کاروباری لوگوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔

تحریر: ڈاکٹر شوکت علی

بشکریہ:

قاضی بشیر احمد، زرعی محقق
و
پاکستان ایگری کلچر ڈسکشن فورم 

کسان کی سرگزشت!!!
جیٹروفا ::میرے ساتھ کیا ہوا
تقریباً 3 سال پہلے مجھے جٹروفا اگانے کا بخار چڑھا تو زرعی رسالے کھنگال مارے۔نیٹ سے معلومات لیں۔اسی دوران ایک دوست نے کہا کہ بہاول پور سے یہ چند قلمیں لایا ہوں قلمیں کامیاب ہو گئیں دوسال میں 5 پودوں سے صرف 60/70 بیج حاصل کر سکا ہوں نرسری بیچنے والوں کے سیل نمبر حاصل کیے۔ان سے رابطہ کیا۔انہوں نے بڑے سبز باغ دکھائے کہ اس کے بیج کا آئل پیٹر یا ٹریکٹر میں استعمال ہوتا ہے اور ڈیزل کی ضرورت نہیں رہتی۔گھر کا ڈیزل پیدا کریں۔کہا گیا کہ فصل وافر ہونے کی صورت میں ہم ایک تحریری معاہدہ کے تحت32 روپے فی کلو بیج لینے کے پابند ہوں گے۔میں نے کہا کہ آپ مجھے 10 کلو بیج500 روپے کلو کے ریٹ سے دیں۔یہ ارنڈ(ہرنولی) کی طرح کا ہے، امید ہے کوہلو میں آئل نکل آئے گا۔آپ میرے ڈیرے پر آئیں۔میں علاقہ معززین کو بلوا لوں گا۔چائے پانی، کھانے کا خرچ میرا ہو گا۔سپائلر یا سپیلر(پتہ نہیں درست لفظ کیا ہے) کا نکلا آئل اپنے پیٹر انجن میں ڈالوں گا۔اگر پیٹر چل پڑا تو آپ کی بلّے بلّے ہو جائے گی اور آپ کی ساری نرسری فوراً ہی بک جائے گی ۔انہوں نے آفر تو کیا قبول کرنا تھی بس ادھر ادھر کی باتوں میں الجھانا شروع کر دیا۔آخرکار ان لوگوں نے فون سننا ہی بند کر دیا۔۔۔۔۔دوستو یہ ہے اصل کہانی۔۔۔۔آگے آپ کی مرضی

Comments

Popular posts from this blog

دنیا میں آلوؤں کی 5000 اقسام پائی جاتی ہیں

دھان کی پیداوار 150 من فی ایکڑ مگر کیسے؟

جنیاں تن میرے نوں لگیاں ۔ ۔ ۔ ۔ تینوں اک لگے تے توں جانے