Posts

صدارتی آرڈینینس کی واپسی کے حوالے سے وزیر اعظم آفس کے بیان کا اردو ترجمہ

جنوری 2012 سے دسمبر 2018 تک حکومت پاکستان کی 417 ارب روپے کی رقم مقدمے بازی کی وجہ سے پھنسی ہوئی تھی۔ دراصل سپریم کورٹ نے گیس سرچارج کا قانون منسوخ کرتے ہوئے حکومت پاکستان کو نہ صرف صنعت کاروں سے آئندہ گیس سرچارج وصول کرنے سے روک دیا تھا بلکہ 417 ارب کی وصول کی ہوئی رقم بھی واپس کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف حکومت پاکستان نے سپریم کورٹ میں نظر ثانی اپیل دائر کی جو مسترد کر دی گئی۔ 417 ارب کی ادائیگی سے بچنے کے لئے حکومت نے ایک نیا قانون منظور کر لیا۔ یہ نیا قانون بھی ہائی کورٹس میں چیلنج کر دیا گیا ہے جس پر سماعت جاری ہے۔ مزید براں  اسی حوالے سے سپریم کورٹ میں بھی کئی درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں۔ اس پس منظر میں حکومت نے صدارتی حکمنامے کے ذریعے کوشش کی تھی کہ  صنعت کاروں کے ساتھ یہ معاملہ عدالت سے باہر حل کر لیا جائے۔ اس حوالے سے مشاورت کے ساتھ یہ طے پایا تھا کہ 417 ارب میں سے آدھی رقم صنعت کار حکومت کو ادا کریں گے جبکہ بقیہ آدھی رقم سے حکومت دستبردار ہو جائے گی۔ تاہم حالیہ رد عمل کے تناظر میں وزیر اعظم نے شفافیت اور گڈ گورنس کو ملحوظ رکھتے ہوئے مذکورہ صدار

شرمین عبید کے لئے 8 سوالات

شرمین عبید کا وضاحتی نوٹ پڑھ کر سوچنے والے کسی بھی ذہین میں کئی طرح کے سوالات پیدا ہو سکتے ہیں؟ پہلے ایک نوٹ اور پھر سوالات: یاد رکھیں کہ فیس بک کسی کی پرائویٹ ڈائری نہیں ہوتی۔ آپ جب فیس بک پہ اپنی کوئی بھی تصویر پبلک کرتے ہیں تو پبلک میں سے کوئی بھی اس پر کمنٹ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ ہاں کمنٹ شائستہ ہونا چاہیئے۔ اگر آپ نہیں چاہتے کہ کوئی اجنبی آپ کی تصویر پر کمنٹ کرے بلکہ صرف غیر اجنبی ہی کمنٹ کریں تو لازما آپ کو پرائویسی کا آپشن استعمال کرنا چاہئیے۔ اسی طرح اگر آپ فیس بک پر موجود ہیں تو کوئی بھی آپ کو فیس بک ریکوسٹ بھیج سکتا ہے۔ یہاں بھی آپ رجیکٹ کا آپشن استعمال کر سکتے ہیں۔ اور اب سوالات سوال نمبر 1: سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ کی بہن نے تصویریں صرف فیس بک فرینڈز کے ساتھ شیئر کی تھیں۔ اگر ایسا ہی تھا تو پھر ڈاکٹر نے اُن پر کمنٹس کیسے کر لئے؟ کیا ڈاکٹر نے آپ کی پرائویسی ہیک کر کے تصاویر پر کمنٹ کرنے کی کوشش کی تھی؟ سوال نمبر 2: کیا آپ کی بہن ڈاکٹر سے نہائیت خوش اخلاقی سے پیش آئی تھی؟ کیا ایسا تو نہیں کہ آپ کی بہن کی غیر معمولی (ڈاکٹر کی نظر میں) خو

خیبر پختونخواہ میں تمباکو کاشت کرنے والے کسانوں نے احتجاج کا اعلان کر دیا ہے

خیبر پختونخواہ میں تمباکو کاشت کرنے  والے کسانوں نے بالآخر  تنگ آ کر سڑکوں پر آنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر تین دن میں ہمارے مطالبات تسلیم نہ  کئے گئے تو دما دم مست قلندر ہو گا۔  دراصل بات یہ ہے کہ باہر کی کمپنیاں کسانوں کو خراب کر رہی  ہیں۔ اور ان کی تمباکو کی فصل باوجود معاہدوں کے نہیں خرید  رہیں۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ اول تو ہمارے مطالبے کے بر عکس  178  روپے فی کلو گرام کے حساب سے تمباکو کی قیمت مقرر کی گئی ۔  اور دوسرے اب اس کم قیمت میں بھی کمپنیاں کسانوں کا  تمباکو خریدنے سے لیت ولعل سے کام لے رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کمپنیاں حکومتی دائرہ کار میں نہیں  آتیں؟  اگر آتی ہیں تو پھر کون ہے جو ان کو کسانوں نے استحصال کی  اجازت دے رہا ہے۔ حکومت سے درخواست ہے کہ کسانوں کے مطالبات کا نوٹس لے  اور ان کمپنیوں کو من مانی سے روکے۔   

آبیانہ اگلے سال سے بڑھا دیا جائے گا

حکومتِ پنجاب نے ورلڈ بنک کو یقین دہانی کروا دی ہے کہ    کاشتکاروں  سے لیا جانے والا آبیانہ آئندہ سال سے بڑھا دیا جائے  گا۔ یہ آبیانہ آئندہ 5 سال تک 20 فی صد سالانہ کے حساب سے  بڑھایا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ نے اس سال 1000 روپیہ آبیانہ  دیا ہے تو وہ اگلے سال یعنی 2018 میں 1200 روپے ہو جائے  گا۔ اسی طرح یہ آبیانہ 2019 میں 1400، 2020 میں 1600،  2021 میں 1800 اور 2022 میں دو گنا یعنی 2000 روپے ہو  جائے گا۔ ورلڈ بنک نے  حکومتِ پنجاب  کو سمارٹ پراجیکٹ میں پیسے دینے کے  کئے یہ   شرط رکھی تھی جسے اطلاعات کے مطابق حکومت نے     قبول کر لیا   ہے۔      تحریر: ڈاکٹر شوکت علی

گنم خریداری بند ۔ ۔ ۔ حکومت کا عالمی بنک سے معاہدہ

 حکومت پنجاب ہر سال  گندم کے کاشتکاروں سے  کٹائی کے وقت  گندم خرید تی  ہے جس کے لئے پورے پنجاب میں گندم خریداری  سنٹر  بنائے جاتے ہیں ۔ لیکن حکومت اب یہ خریداری بند کرنے والی ہے۔ حکومتِ پنجاب، ورلڈ بنک کے ساتھ ایک معاہدے میں گندم  خریداری بند کرنے پر رضا مندہو گئی ہے۔   اس معاہدے کے مطابق  2019 میں حکومت، گندم کی خریداری  کی  بند کرنے کا سرکاری طور پر اعلان کر دے گی۔  اور 2021 تک حکومت  60 لاکھ ٹن کی بجائے صرف 10 لاکھ  ٹن گندم خریدا کرے گی۔ اس معاہدے سے ایک طرف  کاشتکار  بیوپاریوں اور آٹا ملوں والوں  کے رحم   و کرم پر ہوں گے تو دوسری طرف گندم کی کمی ہونے  کی صورت   میں حکومت کے پاس گندم کا سٹاک بھی نہیں ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں کسانوں کو اعتماد میں لے  کرمناسب وضاحت جاری کرے تاکہ کاشتکاروں میں پائی جانے  والی تشویش کم ہو سکے۔ تحریرِ نو: ڈاکٹر شوکت علی 

کیا جٹروفا کے پودے کی کاشت پنجاب میں ہو سکتئ ہے۔

ایک کاشتکار نے "جٹروفا" کی کاشت کے  حوالے سے  اپنی دکھ  بھری   کہانی  شیئر کی ہے (جو اس خبر کے نیچے درج ہے) کہ جڑوفا  کی  کاشت کے حوالے اسے کس طرح  دھوکہ دیا گیا۔ واضح رہے کہ جٹروفا  بیرونِ ملک سے لایا گیا ایک پودا ہے جس  کے بیجوں سے  نکلنے والے تیل سے کوئی بھی انجن چلایا جا سکتا ہے۔ ایگری اخبار  نےجٹروفا پر تحقیق کرنے  والے بہا ولپور میں واقع   زرعی تحقیقاتی ادارے ایرڈ زون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (پاکستان  ایگری کلچرل   ریسرچ کونسل)  سے رابطہ کیا  ہے۔ ادارے کا  موقف درج کیا جاتا ہے   تاکہ کسان بھائی کسی بھی نرسری والے  سے دھوکا نہ کھائیں۔ ادارے کے مطابق پنجاب کی آب و ہوا میں جٹروفے کا ایک پودا  دو سال میں صرف ایک  کلو بیج    پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔   اس طرح ایک ایکڑ میں موجود 280 پودوں سے حاصل ہونے  والے  سات من بیج  سے تقریبا تین من   تیل نکل سکتا ہے۔ جو  کسان کو 250  روپے فی لیٹر کے حساب سے پڑتا ہے۔جو کسی  بھی حوالے سے منافع بخش نہیں ہے۔  اس طرح ادارہ جٹروفے کی  کاشت کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کرتا ہے۔  ادارے کے مطابق  ح

کینولا کی فصل کاشت کر کے حکومتِ پنجاب سے 5000 فی ایکڑ کے حساب سے رقم لیں

آپ کینولا کی فصل کاشت کر کے حکومتِ پنجاب سے 5000 فی  ایکڑ کے حساب سے رقم لے سکتے ہیں۔ صوبہ پنجاب کا ہر  کاشتکار اس سکیم کے تحت زیادہ سے زیادہ 10  ایکڑ کینولا کاشت کر کے 50 ہزار روپے تک رقم حاصل کر سکتا ہے۔ رقم حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے آپ کو رجسٹریشن کروانا  ہو گی۔ رجسٹریشن کیسے ہو گی؟ رجسٹریشن کے لیے دیے گئے نمبروں میں سے کسی پر کال کریں۔  0800-29000 اور 15000-0800 یہ کال مفت ہو گی۔ دیا گیا نمبر ڈائل کرنے سے پہلے کسی طرح کا  کوڈ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوپن والا تھیلا کہاں سے ملے گا؟ اس کے بعد آپ کینولا کے بیج کا تھیلا خریدیں گے ۔ یہ  تھیلا کوپن والا ہو نا چاہیے۔  کوپن ابھی تک  صرف آئی  سی آئی سیڈ کمپنی اور جالندھر سیڈ کمپنی کے تھیلوں میں ہی مل رہا  ہے ۔بغیر کوپن والا  تھیلا اگر آپ نے خرید لیا تو رقم نہیں ملے گی۔ کوپن تھیلے سے آدھا باہر اور آدھا اندر سلا ہوا ہو گا۔ رقم کب اور کیسے ملے گی؟ کوپن کو نکال کر  سکریچ کریں ۔  اس کے بعد اس سکریچ شدہ کارڈ  کا نمبر  اور اپنا ذاتی شناختی کارڈ نمبر  8070 پر ایس ایم ایس