Posts

Showing posts from August, 2017

وہ کونسی جڑی بوٹی ہے جسے خدانخواستہ کھانے کے بعد جانور کی 7 سے 30 دن کے اندر اندر موت واقع ہو جاتی ہے۔

گاجر بوٹی (پارتھینم) پاکستان میں خطرناک حد تک تیزی سے  پھیلنے والی جڑی بوٹی ہے۔ امریکن سنڈی کی طرح یہ بوٹی بھی  امریکہ سے ہی وارد ہوئی ہے۔ یہ ایک زہریلی بوٹی ہے جس میں ایک وقت میں  فی پودا 25000 بیج پیدا ہوتے ہیں۔ عام حالات میں اس کا بیج  زمین کے اندر سات سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ گاجر سے ملتی جلتی جڑی  بوٹی اگر خدانخواستہ  کوئی جانور   کھا لے تو  ایک   ہفتہ سے ایک   مہینے کے اندر اس کی موت  واقع ہو سکتی ہے۔ اس  بوٹی کا انسداد کسی بھی چوڑے پتوں کو تلف کرنے والی زہر  سے کیا جا سکتا ہے۔ یا پھر گلائفو سیٹ سے اس کا تدارک ممکن ہے۔ یاد رہے کہ  گلائفو سیٹ ہر طرح کے سبزے کو مار دیتی ہے۔    بشکریہ  محمد اسلم و ڈاکٹر انجم علی بٹر

دنیا میں آلوؤں کی 5000 اقسام پائی جاتی ہیں

دنیا میں آلوؤں کی 5000 اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے 19 اقسام    پاکستان میں  بھی پائی جاتی ہیں۔  پاکستان میں سرخ اور سفید دونوں طرح کی اقسام دستیاب ہیں۔ سرخ اقسام  درج  ذیل ہیں: 1۔ کروڈا                                            2۔ ڈیزائری 3-آسٹریکس                                        4۔روڈیو 5۔ لال موتی                                        6۔راجہ 7۔بارٹینا                                               8۔ موراتاؤ 9۔برنا                                                  10۔سارپومیرا 11۔ کارڈینل                                        12۔لیڈی روزیٹا 13۔ کَرَج آلو کی سفید اقسام درج ذیل ہیں: 1۔وی وی                                        2۔ سانتے 3۔ ڈائمنٹ                                      4۔ سانتانا 5۔ سگیتا                                          حرمَس کیا آپ نے ان میں سے کوئی ورائٹی کاشت کی ہے؟  آپ کے خیال میں کونسی ورائٹی بہتر ہے؟ کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں!!!

جولائی کے مہینے میں اربوں روپے چائے کی پتتی کی نزر ہو گئے

گزشتہ  ایک مہینے یعنی  جولائی 2017 میں پاکستانی 4  ارب 84 کروڑکی چائے کی پتی  پی گئے۔ اس حساب سے چائے کی درآمد پر اٹھنے والی سالانہ رقم  58 ارب روپے بنتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ ساری پتی باہر سے درآمد کی گئی ہے ۔ جس پر ملک کا قیمتی  زرمبادلہ خرچ ہوا ہے۔ ماہرین زراعت کے مطابق پاکستان کے چار اضلاع مانسہرہ، بٹ گرام، سوات اور  آزاد جموں کشمیر میں چائے کی فصل کاشت کی جا سکتی ہے جس سے اربوں روپے کا  زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق چائے چھوڑ کر آپ زیادہ صحت مند اور ہشاش بشاش زندگی گزار سکتے  ہیں۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ کنتے فیصد کھاد تاجروں کے پاس ٹیکس نمبر ہی نہیں ہے۔ جس نے میٹر ہی نہیں لگوایا وہ بل کیا دے گا؟

پاکستان  میں 90 فی صد کھاد کا کاروبار کرنے والے چھوٹے تاجروں کے پاس ٹیکس نمبر ہی نہیں ہے۔  یہ بات کھاد کارخانوں کی ایڈوائزری کو نسل نے گزشتہ روز بتائی ہے۔ یاد  رہے کہ ٹیکس دینے کے لئے  ٹیکس نمبر ضروری ہے۔ جس طرح بل دینے کے لئے میٹر کا ہونا ضروری ہے۔  اس کا مطلب ہے کہ ٹیکس دینے والوں کی ایک بڑی تعداد ٹیکس کے نظام سے باہر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ٹیکس کی رقم حکومت کو ادا کرنے کا کوئی فائدہ کھاد  خریدنے والوں عام کاشتکا ر کو منتقل ہوتا ہے یا یہ رقم بھی تاجر کی ہی جیب میں  رہتی ہے۔ عام آدمی چاہتا ہے کہ حکومت  منصفانہ بنیادوں پر ٹیکس وصولی کا ایک شفاف نظام  وضع کرے جس میں غریب آدمی کی بھی کوئی سانس نکل سکے

اگلے مہینے کھاد کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں ۔ ۔ ۔کیا آپ وجہ جاننا چاہتے ہیں؟

کھاد فیکٹریوں والوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ  حکومت نے ہمارے 20 ارب روپے دبا لئے ہیں۔ حکومت نے  کھاد سستی کروانے کے لئے بجٹ میں اس رقم کا اعلان کیا تھا جسکی ادائگی  کھاد فیکٹریوں کو ہونا تھی۔ کچھ قسطیں ادا کرنے کے بعد حکومت نے ہمارے پیسے روک لئے ہیں جس سے کھاد فیکٹریا ں مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ اگر  یہ رقم جاری نہ ہوئی تو کھاد کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔جس سے کسانوں کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ سبسڈی کا مسئلہ حل نہ ہونے کی وجہ سے  کھاد کی خریداری میں 68  فیصد کمی واقع ہو چکی ہے جس کے اثرات فصلوں پر پڑنے کا اندیشہ ہے۔

دھان کی پیداوار 150 من فی ایکڑ مگر کیسے؟

چائنہ کے ماہرِ زراعت نے دھان کی ایک نئی ورائٹی متعارف  کروائی ہے جس کی پیداوار 150 من فی ایکڑ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ہائبرڈ ورائٹی پاکستان میں کاشت کے لئے لانچ کر دی گئی ہے۔ اس ورائٹی کو چائنہ کے پروفیسر یوان نے 50 سال کی محنتِ شاقہ کے بعد تیار کیا ہے۔ اس ورائٹی سے پاکستانی دھان کی پیداوار میں انقلاب کی امید پیدا ہو گئی ہے۔  لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ ورائٹی پاکستان کی خوشبودار باسمتی ورائٹیوں کی جگہ لے پائے گی۔ چائنہ سے آنے والی یہ ورائٹی اپنی جگہ، لیکن کیا  پاکستان کے زرعی تحقیقی اداروں سے بھی اسی طرح کی کوئی انقلاب آفریں ورائٹی آنے کی امید ہے؟