Posts

Showing posts from June, 2013

جی ہاں ۔ ۔ ۔ میں جورو ( بیگم) کا غلام ہوں

ملک کے معروف قانون دان جناب اعتزاز احسن الیکشن 2013 کے لیے اپنی بیگم صاحبہ کے کاغذات نامزدگی برائے امیدوار قومی اسمبلی جمع کروا کے میڈیا کے سامنے آئے تو ایک صحافی نے شرارتی سا سوال کر ڈالا۔ اعتزاز صاحب ذرا مسکرائے اور فرمانے لگے۔۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔۔۔۔ میں جورو کا غلام ہوں ۔۔۔۔۔۔ نواز شریف بھی جورو کے غلام ہیں اور آصف زرداری بھی جورو کے غلام تھے اور ہیں۔ اور یہ اعتراف ایک ایسا شخص کر رہا تھا جس نے وکلا تحریک میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی وکالت کی اور دلیل کے زور پر انہیں بحال کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دلیل کا بادشاہ جس کی منطق ہر کس و ناکس کو جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ کیا ایسا شخص بھی جورو کا غلام ہو سکتا ہے؟ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس معمے کو سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ خیبر پختونخواہ اسمبلی بھی جانا پڑے گا۔ جہاں اسمبلی کے پہلے اجلاس میں وزارت اعلی کا حلف لینے کے بعد پرویز خٹک یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ اپنی بیگم صاحبہ سے ڈرتے ہیں۔ انہوں نے اراکین اسمبلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھی فرمایا کہ آپ بھی اپنی بیگمات سے ڈرتے ہوں گے۔ مزید کہنے لگے کہ ہم سب اپنی بیگمات سے ڈرتے ہیں یہ الگ

فخرالدین رازی کے شعری مجموعہ کی اشاعت پر

زرعی یو نیورسٹی فیصل آباد کے اولڈ سینٹ ہال میں مشاعرہ ہو رہا تھا۔ بیسیوں شاعر اس محفل میں اپنا کلام پیش کر چکے تھے۔ایک صاحب آئے اور اپنے رومانوی لہجے میں نہایت عمدہ غزل پیش کی۔اس غزل کو سامعین نے پوری شدت سے محسوس کیا۔ میں بھی سامعین میں شامل تھا اور مشاعرہ ختم ہوتے ہی میری نظروں نے صاحبِ کلام کا تعاقب کیا لیکن وہ شخص لوگوں سے پزیرائی وصول کرتا ہوا جھمگٹے کا حصہ بن کر میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ یہ صاحب جنا ب فخرالدین رازی تھے جن سے چند دن بعد میری پہلی ملاقات ہوئی۔ نرم گرم مزاج کے اس شاعر سے مل کر  مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ بالکل ایسی ہی خوشی جیسی دیوانوں کو دیوانوں سے مل کر ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فخرالدین رازی میرے ان چند دوستوں میں شامل ہے جن کی بدولت یونیورسٹی کا کٹھن سفر میرے لئے قدرے آسان ہو گیا۔ میری ان کے ساتھ رفاقت تقریبا 13سال پرمحیط ہے۔اور اس دوران میں نے رازی کی شاعری کوتخلیق سے لے کر تنقید تک کے تمام مراحل سے گزرتے دیکھا ہے۔ میں اس کے کلام کا اولین سامع بھی رہا ہوں اور تنقید نگار بھی۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں تنقید نگاری میں کہنہ مشق نہیں ہوں باوجود اس کے میں رازی کی شاعر

تحریکِ انصاف کے حامیوں سے معزرت کے ساتھ

 فو زیہ قصوری نے پی ٹی آئی کو خیر باد کہ دیا۔ عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ پی ٹی آئی کا ووٹر پیپلز پارٹی کے ووٹر سے مختلف ہے۔ یہ عمران خان کے رومانس میں مبتلا نہیں ہے بلکہ انصاف کا علمبردار ہے اور انصاف چاہتا ہے۔ اگر واقعی عمران خان ایک پارٹی چیرمین کے طور پر فوریہ کو انصاف نہیں دے سکے تو کل کو ایک وزیر اعظم کے طور پر انصا ف کا بول بالا کیسے کریں گے؟ آج بہت سے لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ کہاں ہے وہ یوتھ جس کا نعرہ لگایا گیا تھا۔ حکومت پاکستان کے مطابق یوتھ کی حدِ عمر 29 سال ہے۔ اقوامِ متحدہ کے نزدیک 24سال ہے۔ اور پی ٹی آ ئی کے مطابق 40 سال ہے۔ ماشا الللہ حقیقت یہ ہے کہ پارٹی میں اس وقت خون دینے والوں کی بجائے چوری کھانے والے مجنووں کا قبضہ ہو چکا ہے۔ کچھ مجنووں نے نسلی ،علاقائی اور لسانی بنیادوں پر دھڑے بندی کر کے پارٹی کو ہائی جیک کر لیا ہے۔ اور جن دنوں میں یہ دھڑے بند سارا کھیل کھیل رہے تھے، عمران خان نے فوزیہ کو پارٹی چندہ جمع کرنے کے لیے باہر بھیجا ہوا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہی دھڑے بند اب پی ٹی آئی کے پارلیمانی بورڈ پر چھائے ہوئے ہیں جو فوزیہ قصوری جیسے مخلص لوگوں کی قسمتوں