تحریکِ انصاف کے حامیوں سے معزرت کے ساتھ

 فو زیہ قصوری نے پی ٹی آئی کو خیر باد کہ دیا۔ عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ پی ٹی آئی کا ووٹر پیپلز پارٹی کے ووٹر سے مختلف ہے۔ یہ عمران خان کے رومانس میں مبتلا نہیں ہے بلکہ انصاف کا علمبردار ہے اور انصاف چاہتا ہے۔ اگر واقعی عمران خان ایک پارٹی چیرمین کے طور پر فوریہ کو انصاف نہیں دے سکے تو کل کو ایک وزیر اعظم کے طور پر انصا ف کا بول بالا کیسے کریں گے؟
آج بہت سے لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ کہاں ہے وہ یوتھ جس کا نعرہ لگایا گیا تھا۔ حکومت پاکستان کے مطابق یوتھ کی حدِ عمر 29 سال ہے۔ اقوامِ متحدہ کے نزدیک 24سال ہے۔ اور پی ٹی آ ئی کے مطابق 40 سال ہے۔ ماشا الللہ
حقیقت یہ ہے کہ پارٹی میں اس وقت خون دینے والوں کی بجائے چوری کھانے والے مجنووں کا قبضہ ہو چکا ہے۔ کچھ مجنووں نے نسلی ،علاقائی اور لسانی بنیادوں پر دھڑے بندی کر کے پارٹی کو ہائی جیک کر لیا ہے۔ اور جن دنوں میں یہ دھڑے بند سارا کھیل کھیل رہے تھے، عمران خان نے فوزیہ کو پارٹی چندہ جمع کرنے کے لیے باہر بھیجا ہوا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہی دھڑے بند اب پی ٹی آئی کے پارلیمانی بورڈ پر چھائے ہوئے ہیں جو فوزیہ قصوری جیسے مخلص لوگوں کی قسمتوں کے فیصلے کر رہے ہیں۔ اور عمران خان ان کے فیصلوں میں مداخلت گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہی  جمہوریت ہے۔
 حقیقت یہ ہے کہ ہر حکومت میں نیاز حاصل کرنے والے موقع پرستوں کو پی ٹی آئی نے پارٹی الیکشن میں راستہ دیا۔ایک   لحاظ سےالیکشن اچھا فیصلہ تھا لیکن  اس میں موقع پرست کھلاڑی بازی لے گئے اور مخلص اناڑی ہار گیے۔ اس الیکشن کے نتائج تحریک انصاف کے نظریے کے منہ پر طمانچہ تھے۔ میں ذاتی طور پر خبر رکھتا ہوں کہ دیہات، یونین کونسل اور تحصیل کی سطح پر ہونے والے الیکشن صرف اور صرف ایک ڈھکوسلہ تھے۔ جس میں بد ترین دھاندلی، سازش، اور خیانت کے ریکارڈ توڑے گئے۔نچلی سطح پر الیکشن کمشنر تک سازش کا حصہ رہے۔ اور یہ تھی وہ بنیادی جمہوری تبدیلی جس کی بنیاد پر عمران خان نے پارلیمانی بورڈ کی عمارت کھڑی کی۔ جس نے جنرل الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم کے ایسے ایسے فیصلے کئے جن پر پی ٹی آیی کے نطریاتی کارکن بے بسی کے عالم میں چیختے رہ گئے اور عام تاثر یہی ابھارا گیا کہ یہ سب ذاتی ٹکٹوں کے حصول کے لیے شور و غوغا کر رہے ہیں۔ پالیمانی بورڈ کے ان فیصلوں
کو ہارون رشید، حسن نثار اور منیر بلوچ جیسے ہمدرد صحافیوں نے  بھی تنقید کا نشانہ بنایا جنہیں کوئی ٹکٹ نہیں چاہیے تھا۔
 عمران خان نے اس موقع پر ایک نیا فلسفہ گھڑ لیا جس کا مرکزی خیال سیاسی اہلیت اور سیا سی تجربہ تھا۔  خان صاحب کے نزدیک اب ان نظر یاتی کارکنوں کی اہلیت مشکوک ہو گئی تھی جنہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد سے عمران خان کو سیاسی میدان میں زیرو سے ہیرو بنا دیا تھا۔ اور اب وہ موقع پرست ان کے نزدیک زیادہ سیاسی سمجھ رکھتے تھے جو پکی  ہوئی فصل کاٹنے کے لیے اپنے کانٹے اور درانتیاں لے کرعمران کے گرد جمع ہو رہے تھے۔ ایسی صورت حال میں مسلم لیگ نون کی یہ دلیل مان لینے میں کیا حرج ہے جس میں وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کے پاس عمران خان سے زیادہ تجریہ کا ٹیم ہے۔اور اس تناظر میں مخدوم امین فہیم کا یہ بیان بھی وزنی دکھائی دیتا ہے جس میں انہوں اپنی پارٹی کے حکومت اور اپوزیشن والے تجربے پر روشنی ڈالی ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے اسی فلسفے کے مطابق ملک کی باگ ڈور اس وقت بہترین ہاتھوں میں ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اس پالیمانی بورڈ نے نہ صرف دوہری شہریت رکھنے والوں کو ٹکٹ دیے بلکہ ایسے کاسہ لیسوں کو نوازا گیا جو مالی اور غیر اخلاقی دھندوں میں ملوث تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف نے جنرل الیکشن میں دوہری شہریت والوں کو ٹکٹ دئے تو پارٹی الیکشن میں فوزیہ کے لیے دوسرا قانون کیوں تھا۔اسی کا نام نا انصافی ہے جس کا نشانہ فوزیہ کو بنایا گیا ہے۔ جو یہ کہتا ہے کہ فوزیہ نے ٹکٹ اور سیٹ کے لیے پارٹی چھوڑی ہے اس کے پیش نظر رہنا چاہیے کہ وہ تو گزشتہ 17سال سے بغیر سیٹ کے انصاف کی جنگ لڑ رہی ہے۔ حالات پر نظر رکھنے  والے جانتے ہیں کہ اس کو نہ صرف پاکستاں بلکہ امریکہ میں بھی سیاسی عہدوں کی پیشکش تھی۔ اور پھر یہ صرف ایک فوزیہ قصوری کے ساتھ نہیں ہوا ۔ خدا جانے کتنی ہی گمنام فوزیائیں ہیں جن کے اخلاص کو پارلیمانی بورڈ کی ذاتی خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ میں پہلے بھی کہ چکا ہوں کی پی ٹی آیی کا ووٹر پیپلز پارٹی کے ووٹر سے مختلف ہے۔وہ تحریک انصاف کے جغادری ٹکٹ ہولڈرز کو کس لیے ووٹ دیتا۔اس پر ووٹر کا رد عمل یقینی تھا۔ جس کا نتیجہ الیکشن کے نتایج کی صورت سب کے سامنے ہے۔آپ دھاندلی کا ضرور شور مچائیں لیکن اس اندرونی دھاندلی کی بھی بات کریں جس کے خلاف جدوجہد کی ابتدا فوزیہ قصوری نے کی ہے۔ اور جس دھاندلی نے تحریک انصاف کے ہمدردوں کو مجبور کیا  کہ وہ یا توالیکشن کے دن گھر بیٹھے رہیں یا بادل نخواستہ کسی ایسی پارٹی کو ووٹ دے آئیں جس کے اور پی ٹی آئی کے درمیان اب ان کے خیال میں میں کوئی فرق نہیں رہا تھا۔ 
 ۔کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے۔ باقی پھر سہی۔ تحریک انصاف کےقلعے کے اندر تو اب تک بہت کچھ توٹ پھوٹ ہو چکی ہے۔لیکن اگر تحریک انصاف کی قیادت فوزیہ کے تحفظات دور کر کے اسے واپس نہیں لاتی تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ تحریک کے قلعے کی بیرونی دیوار سے ٹوٹنے والی پہلی اینٹ ہوگی۔اس کے بعد کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ لوگ بہتر جانتے ہیں جو انسانی تاریخ میں ہونے والی اقتدار کی جنگوں سے واقف ہیں۔ اور جنہوں نے قلعوں کے ٹوٹنے کی تاریخ کے واقعات کتابوں میں پڑھ رکھے ہیں۔ 

Comments

  1. Well said. PTI supporters used to say that the present PPP is not the PPP of Zulafqar Ali Bhuto. Now they can see that their "revolutionary party"- PTI- has passed only one election as a party and showed a tremendous deviation from its basics, on the other hand the PPP faced a terrible dictatorship of its founder murderer, and the direct involvement of the bureaucracy tried a lot to demolish the PPP. On the course of a party evolution, many changes happen, which is evident from the present situation of PTI.
    "Ho tabqa door siasat sy tu reh jaati hy Jahangeeri"

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

دنیا میں آلوؤں کی 5000 اقسام پائی جاتی ہیں

دھان کی پیداوار 150 من فی ایکڑ مگر کیسے؟

جنیاں تن میرے نوں لگیاں ۔ ۔ ۔ ۔ تینوں اک لگے تے توں جانے