فخرالدین رازی کے شعری مجموعہ کی اشاعت پر

زرعی یو نیورسٹی فیصل آباد کے اولڈ سینٹ ہال میں مشاعرہ ہو رہا تھا۔ بیسیوں شاعر اس محفل میں اپنا کلام پیش کر چکے تھے۔ایک صاحب آئے اور اپنے رومانوی لہجے میں نہایت عمدہ غزل پیش کی۔اس غزل کو سامعین نے پوری شدت سے محسوس کیا۔ میں بھی سامعین میں شامل تھا اور مشاعرہ ختم ہوتے ہی میری نظروں نے صاحبِ کلام کا تعاقب کیا لیکن وہ شخص لوگوں سے پزیرائی وصول کرتا ہوا جھمگٹے کا حصہ بن کر میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
یہ صاحب جنا ب فخرالدین رازی تھے جن سے چند دن بعد میری پہلی ملاقات ہوئی۔ نرم گرم مزاج کے اس شاعر سے مل کر  مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ بالکل ایسی ہی خوشی جیسی دیوانوں کو دیوانوں سے مل کر ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فخرالدین رازی میرے ان چند دوستوں میں شامل ہے جن کی بدولت یونیورسٹی کا کٹھن سفر میرے لئے قدرے آسان ہو گیا۔ میری ان کے ساتھ رفاقت تقریبا 13سال پرمحیط ہے۔اور اس دوران میں نے رازی کی شاعری کوتخلیق سے لے کر تنقید تک کے تمام مراحل سے گزرتے دیکھا ہے۔ میں اس کے کلام کا اولین سامع بھی رہا ہوں اور تنقید نگار بھی۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں تنقید نگاری میں کہنہ مشق نہیں ہوں باوجود اس کے میں رازی کی شاعری میں برتے جانے والے ہر ہر لفط کی سادگی اور پرکاری کا نکتہ چیں رہا ہوں۔
میرے لئے رازی کی اردو شاعری کے بارے میں حتمی رائے پیش کرنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ رازی کے اور میرے حالات و خیالات میں بہت زیادہ مماثلت رہی ہے۔ شائد یہی وجہ تھی کہ رازی کی شاعری مجھے اپنےحالات و خیالات کے بہت زیادہ قریب محسوس ہوتی ہو۔ لیکن حوالے کے طور پر یہ چند اشعار دیکھیے جنہیں آپ بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کر پائیں گے۔
   کٹے ہیں جس کی حفاظت میں دست و پا اپنے ؎
ہمارا سر بھی اسی شہر میں اچھالا گیا
مجھے ملال کہ تقسیم ہو گیا ہوں میں 
تجھے یہ دکھ تری پہچان کا حوالہ گیا
میرا یہ جرم کہ میں آشیاں ہوں مفلس کا
تیرا قصور کہ تو بجلیوں میں ڈھالا گیا

کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا ہے کہ رازی ایک نہائت کامیاب تخلیق کار ہے۔
یہ شعر دیکھیے۔
زندہ رہنا مشکل تھا اور مر جانا آسان نہ تھا ؎
چوراہے میں رات گزاری گھر جانا آسان نہ تھا

غزل کے ساتھ ساتھ رازی کی گرفت نظم پر بھی انتہائی مضبوط ہے۔معاشرتی مسائل کے حوالے سے تخلیق کی جانے والی نظمیں لائقِ تحسین ہیں۔
امن کے عنوان سے لکھی جانے والی نظم کا یہ خوبصورت شعر بجائے خود ایک نظم ہے۔

مصاحبینِ شاہ مطمئن کہ اب سکون ہے ؎
ردائے گل سڑک کے درمیان خون خون ہے

اسی طرح کائنات کے عنوان سے کہی گئی نظم کا یہ خوبصورت شعر دیکھیے۔

کہاں تک دیکھ پائو گے تم اپنی دوربینو ں سے ؎ 
نظر کچھ بھی نہیں آتا ہے شیشے کی مشینوں سے

مجھے اس سے زیادہ رازی کی اردو شاعری کے بارے میں کچھ نہیں کہنا۔ہاں اگر میں اس کی پنجابی شاعری کے حوالے سے آنے والے کسی مجموعہ کلام پر اظہار خیال کر رہا ہوتا تو بڑی مفصل گفتگو کرتا اور نہائت واضح لفظوں میں کہتا کہ رازی کا شمار پنجابی شعرا کے اہم ناموں میں ہونے والا ہے۔ جب رازی کے پنجابی مجموعہ کلام کی اشاعت ہوگی تو پھر میں بجا طور پر کہوں گا کہ’خواب دیوار پر بھی اگتے ہیں ‘ ۔ سرِ دست میں اپنے عزیز دوست محمد فخرالدین رازی کے مجموعہ کلام ’خواب دیوار پر نہیں اگتے‘ کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے اس کی کامیابی کے لئے دعاگو ہوں۔

Comments

  1. Sir mery nazdeek tu ap khud b bht ache shaair,ustaad,aur takhleeq kar hn .Allah ap ko lambi zindagi de aur hamein ap k ilm se mustafeed hone ki taufeeq ata kre.........

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

دنیا میں آلوؤں کی 5000 اقسام پائی جاتی ہیں

دھان کی پیداوار 150 من فی ایکڑ مگر کیسے؟

جنیاں تن میرے نوں لگیاں ۔ ۔ ۔ ۔ تینوں اک لگے تے توں جانے