جی ہاں ۔ ۔ ۔ میں جورو ( بیگم) کا غلام ہوں

ملک کے معروف قانون دان جناب اعتزاز احسن الیکشن 2013 کے لیے اپنی بیگم صاحبہ کے کاغذات نامزدگی برائے امیدوار قومی اسمبلی جمع کروا کے میڈیا کے سامنے آئے تو ایک صحافی نے شرارتی سا سوال کر ڈالا۔
اعتزاز صاحب ذرا مسکرائے اور فرمانے لگے۔۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔۔۔۔ میں جورو کا غلام ہوں ۔۔۔۔۔۔ نواز شریف بھی جورو کے غلام ہیں اور آصف زرداری بھی جورو کے غلام تھے اور ہیں۔ اور یہ اعتراف ایک ایسا شخص کر رہا تھا جس نے وکلا تحریک میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی وکالت کی اور دلیل کے زور پر انہیں بحال کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دلیل کا بادشاہ جس کی منطق ہر کس و ناکس کو جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ کیا ایسا شخص بھی جورو کا غلام ہو سکتا ہے؟ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔
اس معمے کو سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ خیبر پختونخواہ اسمبلی بھی جانا پڑے گا۔ جہاں اسمبلی کے پہلے اجلاس میں وزارت اعلی کا حلف لینے کے بعد پرویز خٹک یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ اپنی بیگم صاحبہ سے ڈرتے ہیں۔ انہوں نے اراکین اسمبلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھی فرمایا کہ آپ بھی اپنی بیگمات سے ڈرتے ہوں گے۔ مزید کہنے لگے کہ ہم سب اپنی بیگمات سے ڈرتے ہیں یہ الگ بات کہ برسر عام اس کا اعتراف نہیں کرتے۔ یاد رہے کہ یہ گفتگو ایک ایسے صوبےمیں کھڑے ہو کر کی جا رہی تھی جہاں کے لوگ خواتین کے معاملے میں بہت سخت سمجھے جاتے ہیں۔
عام قاعدے کی بات ہے کہ اگر آپ ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو آپ کو بیگم صاحبہ کا اثر کسی نہ کسی حد تک قبول کرنا پڑے گا۔ اور اگر آپ بشمول بیگم صاحبہ کسی سے بھی نہیں ڈرتے تو پھر آپ کو زندگی کے معاملات خاتون خانہ کے بغیر ہی چلانے پڑیں گے۔خواہ آپ ایک عام آدمی کی سطح پر زندگی گزار رہے ہوں یا آپ کا تعلق اشرافیہ سے ہو، یہ اصول سب پر یکساں اور مکمل طور پر نافذ ہے۔
کیا واقعی پاکستانی خواتین کی گرفت اتنی ہی موثر ہے جیسا کہ بیان کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ایک عام تاثر تو یہ ہے کہ پاکستان میں خواتین ایک مغلوب اور مظلوم طبقہ ہے۔
ہمارے ایک دوست اپنی ذاتی اور ازدواجی زندگی سے  ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ آپ بھی سنیے۔
فرماتے ہیں کہ شادی سے پہلے مجھے لمبے بال رکھنے کا بہت شوق تھا۔اور میرے اس شوق سے میرے والدین، میرے اساتذہ حتی کہ کچھ دوست بھی سخت نالاں تھے۔ لیکن میں کسی کی تشویش کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ جب بھی یہ لوگ میرے لمبے بالوں پر تنقید کرتے ، میں ایک آدھ انچ بال اور بڑھا لیتا۔اسی اثنا میں میری شادی ہو گئی۔ بیگم صاحبہ نے پاؤں جماتے ہی میرے لمبے بالوں کو نا پسندیدہ قرار دے دیا۔ ہفتے میں دو چار مرتبہ ضرور میرے بالوں پر بات ہوتی۔ایک آدھ مرتبہ تو ہماری تُو تُو میں میں بھی ہوئی۔ میں اپنی بیگم کے اس رویے سے عاجز آ چکا تھا۔ایک دن جھنجھلا کر میں نے اپنے سر کے سارے بال منڈوا دیے۔ جب میں گھر لوٹا تو بیگم صاحبہ نے میرا استقبال کیا۔اس کی خوشی دیدنی تھی۔ بیگم کو خوش دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں اپنے سر کا سارا بوجھ اتار کر حجام کی دکان میں پھینک آیا ہوں۔ الحمد للہ ! اب میرے 
گھر کا ماحول خاصا خوشگوار ہے۔
کوئی دو تین سال پہلے کی بات ہے کہ میں جنوبی پنجاب کے ایک مطالعاتی دورے پر کچھ دیہاتوں کا سروے کررہا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ اس گاؤں میں کپاس کی سب سے ذیادہ پیداوار ایک چھوٹا کسان حاصل کر رہا ہے۔ مجھے اس سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ لیکن جب میں نے اس سے گندم کی فی ایکڑ پیداوار کے حوالے سے سوال کیا تو اس کا جواب بڑا حیران کن تھا۔25 سے 30 من فی ایکڑ۔۔ ۔ ۔ ۔صرف 25  سے 30 من فی ایکڑ۔۔ ۔ ۔ ۔ ؟
پورے گاؤں میں کپاس کی پیداوار کے حوالے سے ریکارڈ بنانے والا کسان گندم کی 25 من فی ایکڑ پیداوار لے رہا ہے۔یہ بات میرے لیے خاصی حیران کن تھی۔ میرے کریدنے پر جلد ہی وہ اصل بات کی طرف آ گیا۔
کہنے لگا کہ میں ہمیشہ دیسی گندم کاشت کرتا ہوں۔ اگرچہ اس کی پیداوار کم ہے لیکن یہ کھانے کے حق میں بہت بہتر ہے۔ اس کا آٹا آسانی سے گوندھا جا سکتا ہے، اس کی چپاتی بنانا آسان ہے اور پکنے کے بعد زیادہ دیر تک نرم رہتی ہے۔ ایک سال میں نے سوچا کہ اس دیسی گندم کی جگہ کوئی دوسری ترقی دادہ فصل کا شت کی جائے۔اور میں نے یہ بات اپنی بیگم سے پوشیدہ رکھی کیو نکہ مجھے معلوم تھا کہ وہ اس پر مزاحمت کرے گی۔ گندم کاشت ہو گئی جب برداشت ہو کر گھر آئی تو بیگم صاحبہ نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ اس بار کی گندم ذرا مختلف ہے۔ جب اس کندم کی پسائی کروا کے چپاتی بنائی گئی تو بات پوری طرح کھل گئی۔ میں نے بہتیرا سمجھایا کہ چند دن کھانے پکانے کے بعد طبیعت اسے قبول کر لے گی لیکن معاملہ دن بدن بگڑتا ہی چلا گیا۔ تقریبا روزانہ ہی جب میں شام کے کھانے پر بیٹھتا تو بیگم وہی گندم والی بات چھیڑ دیتی۔اور بڑے بیزار سے لہجے میں کہتی کہ ’ایس دفعہ ساڈی کنک نہیں چنگی‘ یعنی اس دفع ہماری گندم اچھی نہیں ہے۔ یہ بات سنتے ہی میری طبیعت بد مزہ سی ہو جاتی اور کھانا کھانے کا سارا مزہ کرکرا ہو جاتا۔ کوئی دو مہینے اسی کشمکش میں گزرے اور اب میں اس جھنجھٹ سے پوری طرح تنگ آ چکا تھا۔ ایک دن موقع پا کر بیو پاری کے ہا تھ میں نے ساری گندم بیچ دی۔ اور بیگم کے مشورے سے کسی دوسری گندم کا بندوبست کر لیا۔ لیکن معاملہ سلجھ نہ سکا۔ وہ ایک سال میں نے کس طرح سے گزارا، یہ میں جانتا ہوں یا میرا اللہ جانتا ہے۔ اب میں ہر سال اپنی گھریلو دیسی گندم ہی کا شت کرتا ہوں۔ اگرچہ اس کی پیداوار کم ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اطمینان اور چین کا نوالہ لیتا ہوں۔
اسی صمن میں ایک اور قصہ سن لیجئے۔
گزشتہ برس میں نے اپنے ایک بے تکلف دوست کو یہاں فیصل آباد سے کپاس کی ایک ترقی دادہ قسم کا بیج تحفتاً ارسال کیا۔ کاشت کے بعد اس نے مجھے بتایا کہ بیج کا اگاؤ بہت زبردست ہے۔مجھے اس کا فون پُھل گُڈی کے موسم میں بھی آیا۔ وہ خاصا پر جوش تھا ۔اس نے مجھے بتایا کہ کس طرح سے کپاس کے پودے ٹینڈوں کے بوجھ سے الٹے ہوئے جا رہے ہیں۔ لیکن چنائی کے دنوں میں اس کے جوش میں کچھ کمی سی آ گئی تھی۔ مسئلہ پیداوار کا نہیں تھا۔ پیداوار تو بہت اچھی تھی لیکن کپاس کہ یہ قسم چنائی کے حق میں بہتر نہیں تھی۔اور یہ مسئلہ ان کی بیگم صاحبہ نے اٹھایا تھا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ اس کا ریشہ زیادہ لمبا نہیں ہے جس کا چنائی کے لیے گرفت میں آنا مشکل ہے۔اس کے علاوہ اس کا ریشہ ٹینڈے کے ساتھ نہا ئیت مظبوتی سے جڑا ہوا ہے جسے الگ کرنے کے لیے خاصا تردد کرنا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ کھلے ہوئے ٹینڈے کی نوکیں اتنی  سخت اور تیز ہیں کہ احتیاط کے باوجود بھی انگلیوں کی پوروں کو زخمی کر دیتی ہیں۔ بیگم صاحبہ نے ساتھ ہی ساتھ خبردار بھی کر دیا کہ اس سال تو جیسے تیسے چنائی کر لی جائے گی لیکن اگر اگلے سال بھی اگر یہی قسم کاشت کی گئی تو چنائی مشکل ہے۔
نہائت اچھی پیداوار کے باوجود بھی اس سال وہ میرا دوست  گزشتہ سال والی قسم کاشت کرنے سے گریزاں ہے۔اور کسی ایسی دوسری قسم کی فرمائش کر رہا ہے جو اچھی پیداوار کے ساتھ ساتھ چنائی کے حق میں بھی بہتر ہو۔
اس ساری گفتگو سے بہ آسانی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خواتین کھریلو اور زرعی معاملات میں ہونے والے فیصلوں پر 
کس طرح سے اور کس حد تک اثر انداز ہوتی ہیں۔ 
خاص طور پر دالوں، سبزوں اور دیگر گھریلو استعمال میں آنے والی فصلوں کے حوالے سے عورتوں کی دانش کو ترجیح دینے میں ہی مرد حضرات عافیت سمجھتے ہیں۔ حتی کہ لایئو سٹاک کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ میرے ایک جاننے والے نے محض اس لیے اپنی بھینس بیچ دی تھی کہ اس کے دودھ سے حاصل ہونے والے مکھن کی خوشبو بیگم صاحبہ کو پسند نہیں تھی۔اور  ان کے خیال میں مکھن کی یہ ناپسندیدہ خوشبو کی وجہ محض بھینس کی یہ خاص نسل ہے جسے ان کے شوہر کہیں سے ہزاروں میں خرید کر لے آئے تھے۔
اس ساری بحث کے بعد محکمہ توسیع زراعت کی اس حکمت عملی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے جس کی بنیاد اس فلسفے پر رکھی گئی ہے کہ زرعی معاملات میں ہونے والے فیصلوں میں خواتین کا کرار نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسی فلسفے کی رو سے محکمہ، توسیع زراعت یعنی زرعی علوم کی ترسیل کے حوالے خواتین کو درخور اعتنا نہیں سمجھتا۔
حقیقت یہ ہے کہ مرد اور عورت دیہی زندگی کی گاڑی کے دو ایسے پہیے ہیں جو تعاون کی راہ پر چلتے ہوئے ایک دورے پر مسلسل اثر انداز ہوتے ہیں۔  لہذا خواتین کو بھی زرعی توسیع کے حوالے سے خاطر خواہ اہمیت ملنا ضروری اور اہم ہے۔
کیونکہ اگر توسیعی کارکن کسی جدید زرعی ٹیکنالوجی کے حوالے سے  مرد یا عورت میں سے کسی کو بھی قائل کرنے میں  
کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے ٹیکنالوجی کا اپنایا جانا یقینی ہے۔
اور جدید زرعی ٹیکنالوجی کا اپنایا جانا ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ہم سرسبز پنجاب اور خوشحال پاکستان کی تعبیر کر سکتے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون زرعی ڈائجسٹ میں شائع ہونے کے لیے ’زرعی ٹیکنالوجی کے اپناؤ میں خواتین کا کردار‘ کے عنوان سے لکھا گیا ہے۔

Comments

  1. haha..nice one shoukat bhai..interesting :)

    ReplyDelete
  2. Sir g bht umda....Wajood e zan se hai tasweer r kainaat mein rang...hahahaha

    ReplyDelete
  3. Great Sir ji....... :) Maza aa gya......... =D

    ReplyDelete
  4. پیارے شوکت علی۔۔۔۔۔نثر کی زبان میں ایک شاعر کا دکھ ۔۔۔۔کیا کہنے حضور۔۔۔ان دوستوں کا ذکر بھی کر دیتے جو گھر میں بیگم کے آنے کے بعد موبائل بند کر دیتے ہیں۔۔۔۔
    حسد کی آگ میں جل رہا ہوں کہ ہمارا کام خراب کرنے کو نثر لکھنا شروع کر دی ہے۔۔۔۔۔۔۔اسی تہاڈی شاعری چ کدی دخل دتا اے۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. Ramzan yar shoukat sb ki nasar ka yeh rukh merey liey bara dilchasp hey..just looking for more to come

      Delete
    2. Shoukat sahab, bahoot khoob.Mein ny tu apni aankhoon sy poore hosho hawaas ky sath bahot sare doston ko razae ilahi sy behum ko piare hote daikha hy.

      Delete

Post a Comment

Popular posts from this blog

دنیا میں آلوؤں کی 5000 اقسام پائی جاتی ہیں

دھان کی پیداوار 150 من فی ایکڑ مگر کیسے؟

جنیاں تن میرے نوں لگیاں ۔ ۔ ۔ ۔ تینوں اک لگے تے توں جانے