بات ہار اور جیت کی نہیں ہے میرے دوست

بات ہار اور جیت کی نہیں ہے۔ الیکشن 2013 میں حصہ لینے والا ہر پاکستانی صرف اور صرف پاکستان کی جیت کے لیے ہی نکلا تھا ۔ اور کامیاب الیکشن ( جیسے بھی ہیں) سب کی جیت ہیں ۔ لیکن بات یہاں پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے۔
ووٹ دینے والے ذی شعور طبقے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وطن عزیز کی 65 فی صد سے زائد آبادی دیہاتوں پر مشتمل ہے۔ مجموعی طور پر پانچ ہزار دیہاتوں میں سے 65 فی صد بجلی کی مکمل سہولت سے محروم ہیں۔ یہ وہ آبادیاں ہیں جہاں کے باسی کیبل ٹی وی جیسی ایجاد سے نا واقف ہیں۔ حامد میر، کاشف عباسی اور مبشر لقمان جیسے کرداروں کا ان کی زندگیوں میں کوئی دخ نہیں۔ زیادہ تر آبادی آج بھی سرکاری یا نجی ریڈیو نشریات کے طفیل میڈم نور جہاں، استاد مہدی حسن یا لتا منگیشکر کی فلمی موسیقی سے لطف اندوز ہوتی ہے۔اور یہی ان کے نزدیک میڈیا کا اولین مقصد ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان آبادیوں میں اخبارات کی ترسیل بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہزا یہ آبادیاں اخبارات میں جمنے والی سرخیوں کے مضر اثرات سے بھی محفوظ رہتی ہیں۔
شاید آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ملک کا یہی 65 فی صد طبقہ تعلیمی لحاظ سے ناقابل یقین حد تک پیچھے ہے۔ اس آبادی کے پندرہ سال یا اس سے زائد عمر کے 50 فی صد لوگ چٹے ان پڑھ ہیں۔ صرف 7 فی صد لوگ ایسے ہیں جو ایف اے پاس ہیں یا اس سے زیادہ کی تعلیمی قابلیت رکھتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ لوگ نہ ہی تعلیم کو کوئی خاص اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے تعلیمی ترقی کے نعرے میں ان کے لیے کوئی خاص کشش ہے۔ ان کا سیاسی شعور روٹی کپڑے اور مکان کے تصورات سے آگے نہیں جاتا۔
اس کی ایک وجہ معاشی نا ہمواری بھی ہے جس کی جڑیں زمینی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم میں ہیں۔ وطن عزیز کے 45 فی صد زمینی رقبے پر صرف ملک کے 11 فی صد جاگیر دار قابض ہیں۔ آ دھے سے زیادہ ملک پر قابض یہ 11 کا ٹولہ عام دیہاتی کی زندگی پر کتنا گہرا اثر رکھتا ہے، شہری زندگی میں پرورش پانے والا شخص شائد اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ملکی رقبے کی طرح پاکستان کے سیاسی رقبے کے ایک بڑے حصے پر بھی یہی لوگ مسلط ہیں اور سیاسی سکرین پر بار بارابھر کر آنے والے زیادہ تر چہرے بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
رہی سہی کسر برادری اور مزہبی دھڑے بندی نے نکال دی ہے۔ برادریاں اور دھڑے اپنے مخصوص علاقائی اور گروہی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ووٹ دینے کا فیصلہ کرتی ہیں۔
یہ ہے وہ سماجی ڈھانچہ جس کی کو کھہ سے پاکستان میں ہونے والے الیکشن کے نتائج جنم لیتے ہیں۔
اور یہ ہے وہ پاکستان جس میں ایک جماعت ووٹ کی بنیاد پر نیا پاکستان بنانے کی بات کرتی ہے اور دوسری میٹرو بس کے بعد بلٹ ٹرین چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کا سب سے اہم اور بڑا مسئلہ تعلیم کا فقدان ہے۔ روائتی طور پر پاکستان کا تعلیمی بجٹ شرمناک حد تک کم رہا ہے۔ اور اس کا شمار دنیا کے کم ترین تعلیمی بجٹ والے ممالک میں ہوتا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے وسائل کا رخ تعلیمی ترقی کی طرف موڑا جائے اور چمتکار منصوبوں پر وسائل صرف کرنے کی بجائے حقیقی تعلیمی ترقی کو فروغ دیا جائے۔ بصورت دیگر ہم حقیقی جمہورئیت کے ثمرات حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی اس ملک کو ترقی یافتہ ملک بنا سکتے ہیں۔

Comments

  1. Sir i 100% agree with u.Sir plz keep on writing we like ur thoughts............

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

دنیا میں آلوؤں کی 5000 اقسام پائی جاتی ہیں

دھان کی پیداوار 150 من فی ایکڑ مگر کیسے؟

جنیاں تن میرے نوں لگیاں ۔ ۔ ۔ ۔ تینوں اک لگے تے توں جانے