موسمیاتی تبدیلی ۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت یا فسانہ

گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کی بازگشت سنائی دےرہی ہے لیکن پچھلے ایک عشرے سے اس بازگشت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ یہاں تک کہ دنیا کے کئی ایک ممالک جو سمندر کے عین درمیان یا کناروں پر آباد ہیں وہاں "موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات" تحقیق کا ایک اہم موضوع بن چکا ہے۔
اسی تناظر میں کئی ایک اصطلاحیں بھی سائنسی دنیا کا فیشن بن چکی ہیں، اور دوسرے ملکوں کی دیکھا دیکھی پاکستان میں بھی موسمیاتی تبدیلی کو تحقیق کا ایک ایسا موضوع سمجھا جارہا ہے جس پرتحقیق کے لئے قدرے آسانی سے بیرونی فنڈنگ حاصل کی جا سکتی ہے۔ 
 سوال یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کیا واقعی ایک حقیقت ہے یا پھر ذرا سی بات کواندیشہ مغرب نے زیبِ داستاں کے لئے بڑھا دیا ہے۔
یہ درست ہے کہ خاص طور پر مغربی صنعت و حرفت نےماحول کی آلودگی اور کاربن ڈائی آکسائڈ میں بے حد اضافہ کیا ہے جسے اب رک جانا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ پچاس سالوں میں کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھا ہے۔ یہ درست ہے کہ گلیشئرز پگھلنے کی رفتار میں تیزی آئی ہے۔ یہ بھی درست کہ سمندر میں پانی کی سطح میں گزشتہ دہائیوں کی نسبت اضافہ ہوا ہے۔ 
لیکن ان تمام حقائق کے باوجود روائیتی طورپر میرا نقطہ نظراس موضوع پر یہ رہا ہے کہ دنیا اور زراعت کو موسمیاتی تبدیلی سے کوئی خاطر خواہ خطرہ نہیں ہے۔
میں سمجھتا تھا کہ یہ ایک متنازعہ مسئلہ ہے جس پر سائنسدانوں کی آرا بھی بٹی ہوئی ہے۔ اوزون کی تہہ ۔ ۔ ۔ جسے کاربن ڈائی آکسائڈ اور کلورو فلورو کاربن وغیرہ سے جوڑا جاتا ہے۔ ۔ ۔ کے بارے میں بھی بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس تہہ میں کمی بیشی ایک بالکل فطری عمل ہے یعنی اگر آج یہ تہہ باریک ہو رہی ہے تو کل اس کی موٹائی میں  اضافہ ہو جائے گا۔ لہزا تشویش کی کوئی بات نہیں۔
اسی طرح کرہ ارض کے درجہ حرارت کے بارے میں بھی میرے خیالات اسی نوعیت کے تھے۔ اور میں سمجھتا تھا کہ درجہ حرارت کا کم یا زیادہ ہونا فطرت سے مطابقت رکھتا  ہے۔
میں نے کئی دفعہ اس مسئلے کو ایک دوسرے طریقے سے بھی دیکھنے کی کوشش کی۔ میں نے  خیال کیا کہ ہو سکتا ہے شمسی کیلنڈر میں ہی کوئی خامی رہ گئی ہو جو  لیپ کے سال جیسی تکنیک سے بھی درست نہ ہوئی ہو۔اور موسمیاتی ردو بدل  قمری کیلنڈر کی طرح شمشی کیلنڈر پر ہی رونما ہورہا ہو۔ چونکہ گزشتہ سالوں میں موسم سرما اور موسم گرما اگلے مہینوں کی طرف سرکتے ہوئے محسوس ہوئے ہیں لہذا خیال کا قمری کیلنڈر کی طرف جانا اچنبھے کی بات نہیں ہے۔
مختصر یہ کہ میں نے موسمیاتی تبدیلی کو یا تو محض فسانہ ہی سمجھا یا پھر یہ سوچ کر نظر انداز کیا کہ بر صغیر خاص طور پر ارضِ پاک کی مٹی اور  زراعت سے اس مسئلے کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ 
لیکن اب میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اس مسئلے کا تعلق پاکستانی زراعت سے بننا شروع ہو گیا ہے۔
اس سال اکتوبر میں مجھے کوئی پندرہ بیس دن اپنے آبائی گاوں ضلع بہاولنگر میں   گزارنے کا اتفاق ہوا۔
جہاں میں نے کسانوں سے ان کے زرعی مسائل پر تفصیلی بات چیت کی۔ مجھے بتایا گیا کہ اس سال فصلِ خریف میں گوارے اور کپاس کی فصلیں جزوی یا مکمل طور پر ناکامی سے دو چار ہوئی ہیں۔ خاص طور پر گوارے کی فصل کو پھلی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور کسان اس کی کٹائی اور برداشت کی بجائے کھڑی فصل کے اوپر ہل یا روٹاویٹر چلانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اسی طرح کپاس کی فصل بقول ان کے ایک ایسی بیماری کا شکار ہوئی ہے جو زرعی ماہرین کی بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس بیماری میں کپاس کا پودا مرجھا جا تا ہے اور اس کے تمام پتے گر جاتے   ہیں اور ٹینڈے چٹخ جاتے ہیں۔بات چیت پر انہوں نے بتایا کہ یہ دیمک یا اکھیڑے کا مسئلہ ہرگز نہیں ہے۔ 
کسان مجھ سے اس مسئلے کی تشخیص اور آئندہ کے تدارک کے لئے مشورے کی توقع کر رہے تھے جو میں انہیں دینے سے قاصر تھا۔
 میں حیران تھا کہ آخر وہ کونسی وجہ ہے جس کے باعث زیر پاشی کا عمل نہیں ہو سکا اور پھلی یا پھلی میں بیج نہیں بن سکے۔ گفتگو کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اس سال گزشتہ سالوں کی نسبت گرمی زیادہ پڑی ہے۔ خاص طور پر اس سال کی راتیں مقابلتا زیادہ گرم رہی ہیں ۔ حالانکہ صحرائے چولستان کی وجہ سے یہاں گرمیوں کی راتیں عموما ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ لیکن اس سال اس کے برعکس ہوا۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ موسم کی اس شدت کا اثر زیرگی کے عمل پر پڑاہو گا جس سے پھلی اور بیج بننے کا عمل ممکنہ طور پر متاثر ہوا۔
اسی طرح سے کپاس کی بیماری کا تعلق بھی گرمی سے شدت سے ہی بنتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مجھے ایک کسان نے بتایا کہ جس کھیت میں گوبر کی کھاد کا زیادہ استعمال کیا گیا تھا اور ہفتہ وار وافر پانی دیا تھا وہاں بیماری کا حملہ کم ہے یا بالکل نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گوبر کی کھاد اور وافر پانی کی مدد سے پودوں نے گرمی کی شدت کا مقابلہ کیا اور وہ بیماری سے محفوظ رہے۔
گوارے کی فصل کی پیداوار گزشتہ سال بیس سے پچیس من فی ایکڑ رہی تھی لیکن اس سال اسی بیج، اسی زمین اور اسی کسان کے ہاتھوں گوارے کی فصل کاشت ہوئی اور مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ یہی کچھ کپاس کی فصل کے ساتھ ہوا۔ جس ایکڑمیں کپاس کی پیداوار تیس من تک با آسانی حاصل ہوتی ہے اس سال وہاں پیداوار دس من فی ایکڑ سے اوپر نہ جا سکی۔
ظاہر ہے، کسان کے لئے یہ ایک بڑا نقصان ہے اور اس کی ممکنہ وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ یہ ایک محتاط نقطہ نظر ہے۔ یقینا اس پر تحقیق ہونی چاہیے اور سائنسی بنیادوں پر اس مسئلے کی نشاندہی ہونی چاہیے۔ میں نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے کئی ایک نوجوان زرعی سائنسدانوں کو تجویز دی ہے کہ وہ ضلع بہاول نگر کے اس خصوصی مسئلے کو اپنی تحقیق کا موضوع بنائیں تاکہ سائنسی انداز سے اس مسئلے کی وجوہات سامنے آ سکیں۔ اور ہم کسانوں کی بہترانداز میں رہنمائی کر سکیں کہ وہ کس طرح موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہو کر زرعی کاروبار میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

دنیا میں آلوؤں کی 5000 اقسام پائی جاتی ہیں

دھان کی پیداوار 150 من فی ایکڑ مگر کیسے؟

جنیاں تن میرے نوں لگیاں ۔ ۔ ۔ ۔ تینوں اک لگے تے توں جانے