توسیع زراعت کی غیر موثر کارکردگی: اسباب اور حل

حکومتِ پنجاب کے محکمہ زراعت کا نام تو ہر خاص و عام نے سُن رکھا ہو گا۔ لیکن اسی محکمہ کے ایک منسلک شعبہ توسیعِ زراعت سے کم لوگ ہی واقف ہوں گے۔
توسیع زراعت کا بنیادی مقصد کسانوں کو زراعت کے نت نئے طریقوں سے روشناس کر کے اُن کی زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے۔
 بیج کی ترقی دادہ اقسام کے انتخاب سے لیکر فصل کی بڑھوتری کے تمام مراحل تک کسانوں کی رہنمائی کرنا توسیعی کارکنان کے فرائض میں شامل ہے۔ خاص طور پر فصلوں پرحملہ کرنے والے نقصان دہ کیڑوں اور بیماریوں سے محفوظ کرنے کے لئے توسیعی کارکنان کی خدمات نہائت اہم ہیں۔
 ہر پندھرواڑے، کسانوں کی فصلوں کا معائنہ کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ کارآمد اور مفید سفارشات دینا شعبہ توسیع کی سرکاری ذمہ داری ہے۔
دیگر اضلاع کی طرح فیصل آباد میں بھی توسیعِ زراعت کا شعبہ اپنے دفتر، واقع جھنگ روڈ سے توسیعی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
توسیعِ زراعت کا یہ نظام، تحصیل اور یونین کونسل سے ہوتا ہوا دیہات کی نچلی سطح تک پھیل جاتا ہے جہاں شعبہ کے زراعت افسر اور فیلڈ اسسٹنٹ کسانوں کو جدید زراعت کی طرف مختلف طریقوں سےراغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اپنے محدود وسائل اور مسائل کے پیشِ نظرتوسیعِ زراعت کے کارکنان اپنی سی لا حاصل کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں۔
محکمہ پولیس، محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم کی طرح ہر شخص توسیعِ زراعت کی اہمیت سے واقفیت نہیں رکھتا۔
اس محکمے کی افادیت کو سمجھنے کے لئے آئیے ایک چھوٹا سا حساب لگاتے ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ضلع فیصل آباد میں تقریبا سات لاکھ ایکڑ رقبہ پر
 گندم کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ جس سے تقریبا 2 کروڑمن گندم حاصل ہوتی ہے۔ 
یوں  فیصل آباد میں، گندم کی اوسط پیداوار تقریبا 28.5 من فی ایکڑبنتی ہے۔
واضح رہے کہ جو کسان توسیع زراعت کی مشاورت سے کھیتی باڑی کرتے ہیں وہ گندم کی فی ایکڑ پیداوار60 من تک بھی حاصل کرتے ہیں۔
 لہذا اگر توسیعِ زراعت کی کاوشوں سے گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں صرف ایک من کا ہی اضافہ ہو جائےتو اس معمولی اضافے سے ضلع کی مجموئی پیداوار میں سات لاکھ من گندم کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
سرکاری قیمت کو سامنے رکھتےہوئے اگر حساب لگایاجائے تواِس اضافی گندم کی قیمت 90 کروڑ سے زائد بنتی ہے۔ 
اسی طرح 2 من فی ایکڑ گندم کے اضافے سے یہ قدر ایک ارب 80 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پونے دو ارب سے بھی زائد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
اور پھر یہ تومحض ایک ضلع میں ایک فصل کی بات ہے۔
 اسی طرح اگر صوبہ بھر کے تمام 36 اضلاع کو شمار میں لایا جائے تو بات کہاں سے کہاں تک پہنچتی ہے۔
چاول، کپاس، گنا، مکئی اور دیگر فصلوں کا حساب الگ ہے۔
توسیعِ زراعت پر سرمایہ کاری کی افادیت جانچنے کے لئے دنیا میں خاطر خواہ سائنسی اور تحقیقی کام ہوا ہے۔ السٹن وغیرہ (2000) کے ایک تحقیقی جائزے میں بیان کیا گیا ہے کہ توسیع زراعت پر ایک روپےکی سرمایہ کاری کرنے سےفائدے کی سالانہ  شرح 40 سے لے کر85 فی صد تک ممکن ہے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اس قدر وسیع امکانات رکھنے والے محکمے کو سرکار کتنی اہمیت دیتی ہے۔
آپ کو یہ جان کر شائد حیرت ہو کہ  حکومت پنجاب کے مطابق، سال 2014 کے بجٹ میں،  صوبائی توسیع زراعت کے لئے صرف 97 کروڑروپے مختص کئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ بجٹ مبینہ طور پر شعبے کو دیا گیا کسی بھی سال کا سب سے زیادہ بجٹ ہے اور اس میں ترقیاتی اور غیر ترقیاتی دونوں طرح کے اخراجات شامل ہیں۔
 اگر بات کم بجٹ تک ہوتی توپھر بھی شائد معاملات اپنی ڈگر پر چلتے رہتے۔ توسیع زراعت کی مشکلات کا جائزہ لیا جائے تو حالات کہیں زیادہ گھمبیر اور پیچیدگی کا شکار ہیں۔
گزشتہ عشرے پر نظر ڈالنے سے اس پیچیدگی کا ادراک کسی حد تک کیا جا سکتا ہے۔ اگست 2001 میں ضلعی حکومتوں کے قیام نے، اس محکمے کوبھی صوبائی تحویل سے نکال کرضلعی ناظمین کے ماتحت کر دیا تھا۔ اصولی طور پر یہ فیصلہ درست تھا لیکن ضلعی قیادتوں کی غیر دانشمندانہ ترجیحات کی وجہ سے توسیع زراعت کی سرگرمیوں کو شدید دھچکا لگا۔
وقار ملک (2003) کے مطابق ضلعی ناظمین تعمیراتی کاموں، بجلی کی فراہمی اوراسی طرح کے دیگر ترقیاتی منصوبوں میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ لہذا توسیع زراعت اور زرعی ترقی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی۔ 
ان ترجیحات کی ایک وجہ شائد یہ بھی تھی کہ ہمارے ہاں سیاستدان اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ دیہاتی لوگوں سے ووٹ لینے کے لئے فوری اور نظر آنےوالے منصوبے زیادہ کارگرثابت ہوتے ہیں۔
جب ضلعی حکومتیں ختم ہوئیں اور ناظمین منظر سے غائب ہوئے تو توسیع زراعت کو واپس صوبائی تحویل میں دینے کی بجائے عملا ڈی سی او کے ماتحت کر دیا گیا۔ جس سے یہ محکمہ ضلعی انتظامیہ کا دم چھلا بن کر رہ گیا۔
شعبے میں خالی آسامیوں کے علاوہ دیگر مسائل الگ ہیں۔ 
اب معاملہ کچھ یوں ہے کہ توسیعِ زراعت کے کارکنان توسیعی سرگرمیوں کی بجائے حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی طرف سے وقتا فوقتا جاری ہونے والے غیر زرعی احکامات کی تکمیل میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔
محکمہ صحت میں خسرہ یا پولیو مہم ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
سستے رمضان بازارہوں یا پھر سرکاری ماڈل بازار ۔ ۔ ۔ ۔
شہر کی خوبصورتی کو بڑھانا ہو یا سڑکوں کو پھولوں سے آراستہ کرنا ہو۔ ۔ ۔ ۔
محکمہ تعلیم کا کوئی معاملہ ہو یا بسنت پر پابندی کویقینی بنانے کا مسئلہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ان سارے معاملات کی کامیابی کے لئے ضلعی انتظامیہ توسیعی کارکنان کی خدمات حاصل کرنا انتہائی ناگزیر سمجھتی ہے۔
ہاں اگر ان کارکنوں کومندرجہ بالاضروری کاموں سے فرصت مل جائے تو کبھی کبھار یہ کسانوں کے پاس بھی چلے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ توسیعی کارکنان زرعی اداروں کے اعلی تعلیم یافتہ اور پروفیشنل ڈگریوں کے حامل ہیں اور ان کی تربیت زراعت کے شعبے کے لئے خاص ہے۔
لیکن آئے روز کی اس بیگار نے ان کارکنان کے مورال کو انتہائی پست کر دیا ہے۔ کسانوں کو خدمات نہ دے پانے کی وجہ سے دیہی علاقوں میں ان کے وقار پر شدید ضرب لگی ہے۔ 
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے کسان، توسیعی کارکن کو شعبہ توسیع کا کارندہ نہیں بلکہ حکومتِ پنجاب کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔ 
کسان کو لوڈ شیڈنک کا مسئلہ ہویا نہر بندی کا معاملہ ہو۔ ۔ ۔ ۔ 
اس کو پٹواری سے شکائت ہو یا کسی ڈیلر سے کوئی معاملہ ہو ۔ ۔ ۔ ۔ 
وہ ہر معاملے میں توسیعی کارکن کی طرف دیکھتا ہے اور اپنے مسئلے کا حل چاہتا ہے۔
ظاہر ہے ان مسائل کا حل توسیعی کارکن کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ جب وہ اس سلسلے میں کسان کی کوئی مدد نہیں کر پاتا تو کسان توسیعی کارکن کی دیگر خدمات بھی مسترد کر دیتا ہے۔ اور اس کے کام کو شغل بے کارسمجھنا شروع کر دیتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت توسیعی کارکنان کے اعتماد کو بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جس کے لئے کارکنان کے دائرہ اثر کو بڑھانا پڑے گا۔ اِس  کے ساتھ ساتھ اس محکمے میں ہر طرح کی مداخلت کو بند کرنا پڑے گا اور انہیں ضروری وسائل سے بھی لیس کرنا ہو گا۔
اگر شعبہ توسیع کو آزادانہ ماحول میں ایک ادارے کے طور پر کام کرنے کا موقع دیا جائے تو یہ شعبہ ملک کی زرعی پیداوار میں حیران کن اضافہ کرنے کے اپنے اندر وسیع امکانات رکھتا ہے۔

نوٹ: یہ زرعی فیچر لوک سجاگ کے لئے لکھا گیا۔

Comments

Popular posts from this blog

دنیا میں آلوؤں کی 5000 اقسام پائی جاتی ہیں

دھان کی پیداوار 150 من فی ایکڑ مگر کیسے؟

جنیاں تن میرے نوں لگیاں ۔ ۔ ۔ ۔ تینوں اک لگے تے توں جانے