بچپن کی پہلی محبت

میں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ ایک متوسط سے بھی ذرا نچلے درجے کا گھرانہ تھا۔والد محترم سات جماعتیں پاس تھے اور والدہ ان پڑھ تھیں مگر قران پڑھ لیتی تھیں۔ وہ گھڑی پہ وقت دیکھنے سے بھی قاصر تھیں کیونکہ انہیں ہندسوں کی پہچان نہیں تھی۔ البتہ اگر میں سب بہن بھائیوں کے نام لکھ کر ان کے سامنے کرتا تو وہ انہیں چھانٹ کر الگ الگ کر لیتی تھیں ۔میں کئی سالوں سے ان کی آنکھوں میں بڑھاپے کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ میری دعا ہے کہ الللہ انہیں سلامت رکھے۔کیونکہ انہیں کے دم سے مجھے اپنے گاوں والے گھر میں وہ کشش نظر آتی ہے کہ ہر مہینے کھنچے چلے جانے کوجی چاہتا ہے۔
عام طور پر لوگ اپنے بچپن کو زندگی کا سب سے خوبصورت حصہ سمجھتے ہیں ۔ لیکن میرا معاملہ ان لوگوں سے الگ ہے۔ میرا بچپن چند تلخ یادوں کے سوا کچھ نہیں۔ میرا لڑکپن بچپن سے زیادہ خوشگوار تھا اور جوانی لڑکپن سے زیادہ حسین ہے۔ لہزا آپ کی طرح میں اپنے بچپن میں لوٹنا نہیں چاہتا۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ زمانہ گزر گیا جس کی یادیں مجھے آج بھی تڑپا کر رکھ دیتی ہیں۔ زندگی کے ۳۲ برس گزارنے کے بعد بچپن کے متعلق جو باتیں میرے ذہن میں نقش ہیں ان  میں سے ایک اپنی کم مائگی کا احساس بھی ہے جس کا دائرہ کار گھر کے اندر سے لے کر گھے کے باہر تک پھیلا ہوا تھا۔
گھر کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ میرا اپنے بہن بھائیوں میں پانچواں نمبر تھا۔ سب سے بڑی دو بہنیں تھیں ۔ والدین کو بیٹے کی شدید خواہش تھی جو الللہ تعالی نے یکے بعد دیگرے دو بیٹے عطا کر کے پوری کر دی۔
یہ وہ جگہ تھی جہاں رب العزت کی طرف سے مجھے دنیا میں بھیجنے کا اذن ہوا۔ لہزا ترتیب اور جگہ کے لحاظ سے میرا دنیا میں آنا کوئی اتنی بڑی خبر نہ ٹھہرا۔ شاید یہی وہ واقعہ تھا جس نے مجھے اندرونی طور کم مائیگی کے احساس سے دوچار کیا ہو گا۔
گھر کے باہر کا ماحول یوں تھا کہ میرے گھرانے کی اپنے گاوں میں کوئی نمبرداری یا چوہدراہٹ وغیرہ نہ تھی۔ بس ایک عام سا گھرانہ تھا۔ گاوں میں زمین وغیرہ کی ملکیت کو چودھراہٹ کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ اور الللہ نے ہمیں اس حوالے سے خوب نواز رکھا تھا۔ لیکن چودھراہٹ میں زمین داری کے علاوہ کچھ اور باتوں کا بھی دخل ہوتا ہے جن سے میرے والد محترم طبعا مبرا تھے۔ رہی سہی کسر ان کی بیماری نے نکال دی تھی۔ وہ اپنی کل چوالیس سالہ زندگی میں پندرہ سال تک بیماری سے لڑتے رہے۔ نو جوانی کی عمر میں شادی ہوئی اور عین جوانی میں ان کو پراسرار بیماری نے گھر لیا۔ ان کی بیماری کچھ الگ تھی۔ کسی جادو ٹونے والے، حکیم یا ڈاکٹر کی سمجھ میں نہ آنے والی۔ مرنے سے کچھ ماہ پہلے ڈاکٹروں نے ان کے دماغ میں رسولی کی تشخیص کی لیکن اب وقت بہت آگے جا چکا تھا۔
 بیماری کی وجہ سے والد مھترم گاوں کے منظر نامے سے ہٹتے چلے گئے۔اور بہت سے بونوں کو اپنے قد کاٹھ کی نمائش کا موقع مل گیا۔انہوں نے دانستہ ہمیں کم مائیگی کی دلدل میں دھکیلا۔ اس واقعے کا اثر دوسرے بہن بھائیوں پر بھی پڑا ہو گا۔ لیکن حالات گواہ ہیں کہ میں نے ان حالات کا سب سے زیادہ اثر قبول کیا۔
ان حالات میں آخرننھے منھےبچے کرہی کیا سکتے تھے۔ ہمارے پاس لے دے کے اپنے دادا کی پروقار اور متحرک  زندگی کے قصے تھے۔ جو ہمارے لئے کسی کام کے نہ تھے۔ 
 والد مھترم نے اپنے علاج کے علاوہ جس کام پر سب سے زیادہ توجہ دی وہ ہم بہن بھائیوں کی تعلیم تھی۔ ہمارے گاوں میں لڑکوں کی تعلیم کے لیے پرائمری سکول تھا۔ جہاں میرے دونوں بڑے بھائیوں کو داخل کروا دیا گیا۔ یہ دونوں ہم جماعت تھے۔ میں بھی جب چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو اپنے بھائیوں کے ساتھ سکول کی راہ لیتا۔ میرا نام چونکہ رجسٹر میں درج نہیں تھا۔اس لئے اساتزہ کرام مجھے اور مجھ جیسے دوسرے بچوں کو زیادہ درخور اعتناہ نہیں سمجھتے تھے۔ وہ شاید یہی سمجھتے ہوں گے کہ والدین ان بچوں کی نگہداشت سے تنگ آ کر ہمارے یہاں چھوڑ جاتے ہیں۔ اور فی الحقیقت واقعہ بھی یہی تھا۔ کیونکہ گاوں کی مصروف اور مشکل زندگی میں والدین ہر وقت بچوں کے سرہانے نہیں بیٹھ سکتے۔
سکول میں سنتے پڑھتے مجھے کچھ ابتدائی الفاظ اور جملے زبانی یاد ہو گئے تھے۔ ایک دن استاد نے یہ جملے میری توتلی زبان سے سنے تو کسی قدر حیرانی کا اظہار کیا اور مجھے شاباش دی۔اس طرح سے پہلی بار مجھے سکول میں اپنی انفرادیت کا احساس ہوا۔ کیونکہ میری صف میں بیٹھنے والے کسی بھی دوسرے بچے کے لئے استاد نے حیرانی کا اظہار نہیں کیا تھا اور نہ ہی شاباش دی تھی۔
میں جس نظام میں زندگی کے ابتدائی دن گزا رہا تھا اس نظام میں سکول ہی وہ پہلی اور واحد جگہ تھی جس نے مجھے زندگی کا بھر پور احساس دیا۔ یوں مجھے سکول ایک اچھی اور پیاری جگہ لگنے لگا۔ میں سکول کی محبت میں گرفتا ہو
چلا تھا۔ اوراسی محبت کے طفیل میں نے انفرادیت کو برقرار رکھنے کا بے پناہ عزم اپنے اندر جمع کر لیا تھا۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

Comments

  1. Sir i was much curious to know about you but now feeling little bit satisfactory but plz complete it.........................

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

دنیا میں آلوؤں کی 5000 اقسام پائی جاتی ہیں

دھان کی پیداوار 150 من فی ایکڑ مگر کیسے؟

جنیاں تن میرے نوں لگیاں ۔ ۔ ۔ ۔ تینوں اک لگے تے توں جانے