حالیہ بجٹ: چھوٹا کسان اور بڑا بہلاوہ


حالیہ  بجٹ میں دی گئی زرعی مراعات کو بجٹ کے امتیازی نشان کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔زرعی شعبے کے لئے 341 ارب کے تایخی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ میں سب کچھ کسان پر لٹا دیا ہے۔ کھادیں، زرعی ادویات و آلات کسی قدر سستے کر دئیے گئے ہیں اور ٹیوب ویلوں کے بجلی نرخ کم ہو گئے ہیں۔ اس اعلان سے اس طرح کا تاثر دیا جا رہا ہے کہ اس پیکج سے کسان کی خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہو جائے گا۔
لیکن مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان مراعات سے عام کسان کی معاشی اور معاشرتی زندگی میں کسی خاطر خواہ تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ہاں البتہ اس بجٹ کی خیرو برکت سے زرعی مداخلات سے وابستہ صنعتی گروپوں کاکاروبار چمک اٹھے گا، کیونکہ کھیت میں کھاد اور زرعی ادویات کی کھپت بڑھ جائے گی اور اس طلب کو پورا کرنے کے لئے صنعت کا پہیہ تیزی سے کھومے گا۔کھاد و ادویات کے وافر استعمال سے زرعی پیداوار پر بھی مثبت اثرات پڑنے کی امید ہے۔اور اس پیداواری بہتری کی بدولت ملک کے معاشی زرعی اشاریے بھی آئندہ سال بہتر ہو سکتے ہیں۔
لیکن ایک عام اور چھوٹے کسان کو اس بڑھوتری سے کیا ملے گا۔۔۔صرف حیف اور حسرت ۔۔۔ جس کا وہ کئی نسلوں سے وارث چلا آ رہا ہے۔
چھوٹے کسان پر حالیہ بجٹ کے ثمرات کا جائزہ لینے کے لیے آئیے ایک چھوٹا سا حساب جوڑتے ہیں۔
فرض کیجئے کہ ایک کسان پانچ ایکڑ رقبہ پر کپاس کی فصل کاشت کرنا چاہتا ہے۔بہتر پیداوار کے لیے اسے تقریبا پانچ بوری ڈے اے پی اوردس بوری یوریا کھاد کی ضرورت ہو گی۔بجٹ مراعات کی بدولت فی بوری یوریا اور ڈی اے پی اسے 400 روپے سستی ملے گی۔اس طرح اس کی پیداواری لاگت کھاد کی مد میں 6000 روپے کم ہو گی۔فصل کو جڑی بوٹیوں اور کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رکھنے کے لئے زرعی ادویات کی تقریبا 30 بوتلیں درکار ہوں گی۔بجٹ میں چونکہ زرعی ادویات پرلاگو سات فی صد ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے لہذا 50 روپے فی بوتل سستی ملنے کی امید ہے جس سے پیداواری لاگت میں 1500 روپے کی تخفیف ہو گی۔ا یک درمیانہ کسان کپاس کی فی ایکڑ پیدااوار 25من تک حاصل کر لیتا ہے۔ اس طرح پانچ ایکڑ سے پھٹی کی کل پیداوار 125 من ہونے کی امید ہے۔اب یقیناًکسان اپنا یہ سرمایہ ٹرالی پر لاد کراپنی نزدیکی منڈی میں فروخت کرنے کے لئے لے جائے گا۔سارے زرعی عمل میں یہی وہ مرحلہ ہے جس پر کسان کی خوشحالی یا بدحالی کا دارومدار ہے۔مثال کے طو پر اگر اسے پھٹی کی قیمت چار ہزار روپے فی من مل جائے تو کل پانچ لاکھ روپے کی رقم اس کے ہاتھ آئے گی۔لیکن اگر قیمت دو ہزار روپے تک گر جائے (جیسا کہ گزشتہ سالوں میں ہوا ہے) تو کسان کی جیب سے یک مشت اڑھائی لاکھ روپے نکل جائیں گے۔
اگر آپ کسان کی ایک جیب سے اڑھائی لاکھ روپے نکال کر دوسری جیب میں 7500 روپے ڈال دیں تو کیا اس سے کسان خوشحال ہو جائے گا؟ ظاہر ہے اس طرح کی جمع تفریق کو کسان کی خوشحالی کا نام نہیں دیا جا سکتا۔کسان کی ترقی اور خوشحالی کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کی اس کی پیداوار مناسب نرخوں پرخریدی جائے۔ اس کیلئے زرعی اجناس کی امدادی قیمتیں مقرر اور برآمدات میں اضافے کا نظام وضع کرنا ہو گا۔ اور درآمدات کرتے ہوئے مقامی منڈیوں میں قیمتوں کے اتار چڑھاو میں کسان کا مفاد پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔
میں نے توجہ سے بجٹ تقریر سنی ہے لیکن پوری تقریر میں ان معاملات کا دکر تک نہیں تھا۔لہذا زراعت کا وہ پہلو جس سے عام کسان کی زندگی میں کوئی بہتری آنے کی امید تھی، یکسرنظر انداز کر دیا گیا ہے۔بلکہ اس حوالے سے حکومتی پالیسیاں کسان کے استحصال پر مبنی ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال کپاس کی پیداوار ملک میں 28 فی صد کم رہی۔ رسد اور طلب کے اس واضح فرق کی بدولت پھٹی کی قیمتیں بلند ہونے کے واضح امکانات تھے ۔لیکن ان حالات میں حکومت نے پھٹی کی درآمد کا فیصلہ کیا جس سے کسان کو ملنے والے فائدے کے امکانات ختم ہو گئے۔ہمسایہ ملک سے ہونے والی درآمد پر اگر مناسب کسٹم ڈیوٹی عائد کر دی جاتی تو کسان کی کم پیداوا کی تلافی ہو سکتی تھی۔لیکن فی الحال حکومت اس طرح کے فیصلوں کی طرف مائل نظر نہیں آتی۔
یہ صرف ایک مثال ہے۔اجناس و مداخلات کے درآمدی برآمدی کھیل نے کسان کا خواطر خواہ استحصال کیا ہے۔
گزشتہ سال تو خیر جو ہوا سو ہوا۔ لیکن ایک سال گزرنے کے بعد جب حکومت سال 2017میں اگلا اقتصادی سروے پیش کر رہی ہو گی تو بڑے فخر سے زراعت کی ترقی اور کسان کی خوشحالی کا اعلان کر رہی ہو گی۔ بتا رہی ہو گی کہ ہماری پالیسیوں کی وجہ سے زراعت کے تمام اشاریے مثبت رہے ہیں۔زرعی صنعت پھلی پھولی ہے اور کسان خوشحال ہوا ہے۔
جبکہ اس اعلان کی گونج میں کسان اپنا وہی رونا رو ہا ہو گا جو اس کے باپ دادا کئی نسلوں سے روتے چلے آ رہے ہیں کہ اس کے آنسو پونچھنے والا کوئی نہیں۔ ہو سکتا ہے کسان کے آنسو خشک ہونے میں ابھی کچھ وقت لگے۔
یہ کالم روزنامہ نظائر لاہور میں شائع ہوا۔

Comments

  1. Kisan Ke aansoo us ka vote hi poonch sakta hai, agar use apni marzi se vote dalne ki azadi ho to.

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

دنیا میں آلوؤں کی 5000 اقسام پائی جاتی ہیں

دھان کی پیداوار 150 من فی ایکڑ مگر کیسے؟

جنیاں تن میرے نوں لگیاں ۔ ۔ ۔ ۔ تینوں اک لگے تے توں جانے