گندم خریداری مہم، کسان اور بیوپاری


گندم خریداری مہم اپنے آخری مراحل سے گزر رہی ہے۔حکومت پنجاب نے 40لاکھ ٹن گندم خریدنے کے لیے 130ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی تھی۔خریداری مہم کی قومی اخبارات کے ذریعے وسیع پیمانے پر تشہیر کی گئی جس میں چھوٹے کسانوں کو ترجیحی بنیادوں پر گندم خریدنے اور عام کسانوں کی سہولت کے لیے کیے گئے ہرممکن اقدامات کا پر زور دکر تھا۔اس کے علاوہ محکمہ خوراک و محکمہ زراعت کے وزراء کے بیانات بھی اخبارات کی زینت بنتے رہے جن میں گندم خریداری مہم سے پٹوار کلچر اوربیوپاری کے خاتمے سمیت کسانوں سے گندم کا آخری دانہ تک خریدنے کا بطور خاص ذکر تھا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان تمام ترکاوشوں کے باوجود یہ نظام عام کسانوں کو سہولت فراہم کرنے میں کامیاب ہو سکا یا نہیں۔
اسی سوال کی بازگشت گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں بھی سنائی دی۔ عوامی نمائندوں نے سسٹم کی شفافیت اور مفاد پرست بیوپاریوں کی ریشہ دوانیوں پر کئی ایک سوالات اٹھائے۔ ایک نمائندے نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایم پی ہونے کے باوجود اسے اپنی ذاتی گندم بیوپاری کے ہاتھ 1030 روپے فی من کے حساب سے بیچنا پڑی ہے۔ اگر حالات واقعی ایسے ہیں تو پھر ایک عام کسان کے بارے میں کیا توقع کی جا سکتی ہے اور وہ اس مہم سے کس حد تک فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
گندم خریداری مہم 2016ء کا قریبی مشاہدہ کرنے والے بتاتے ہیں کہ گندم خریداری سنٹروں پر آنے والے حقیقی کاشتکارمحض 10سے15فیصد ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ خریداری مہم کا سارا نظام آڑھتیوں اور بیوپاریوں کی چاند ماری کے لئے بنایا گیا ہے ۔
موجودہ مہم میں حکومت کو کسانوں کی طرف سے 1400 شکایا ت موصول ہوئی ہیں۔ ہمارے کسان طبقے کا ایک بڑا حصہ ان پڑھ ہے جس میں حکام بالا کو شکائت کرنے کا کوئی تصور یا روائت نہیں ہے۔ ان حالات میں سینکڑوں شکایات کا موصول ہونا سسٹم کی کارکردگی کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ حکومت نے اس نظام کی خرابی کو جانچنے کے لئے دو عدد کمیٹیاں تشکیل سے دی ہیں تاکہ آئندہ سال خرابے سے بچا جا سکے۔ 
دراصل اس سارے خرابے کا آغاز گرداوری سے ہوتا ہے۔گرداوری اس تفصیلی سروے کا نام ہے جس میں پٹواری حضرات ایک جامع فہرست مرتب کرتے ہیں ۔ اس فہرسست میں یہ تفصیل درج ہوتی ہے کہ کس کاشتکار نے کتنے ایکڑ رقبے پر کونسی فصل کاشت کررکھی ہے۔
ربیع فصلات کی گرداوری کا ؒ آغاز یکم مارچ سے ہوتا ہے۔گرداوری میں پیچیدگی یہ ہے کہ پنجاب میں تقریباً50فیصد پٹواریوں کی آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ایک پٹواری کو ایک کی بجائے دو دو، تین تین حلقہ جات کی گرداوری کرنا پڑتی ہے۔ایک حلقہ تقریباً300سے400مربع جات پر مشتمل ہوتا ہے۔اس طرح پٹواری حضرات 600سے800مربع جات کی گرداوری کرنے پر مجبور ہیں۔
ایک وقت تھا کہ جب سرکاری گرداوری کا یہ کام کھیتوں،کھلیانوں تک سے گزر جانے والے گھوڑوں پر کیا جاتاتھا لیکن فی الوقت پٹواری کو جو سرکاری سہولیات میسرہیں اس کے مطابق گرداوری کا یہ عمل پیدل سرانجام دیاجاتا ہے۔
یوں سمجھئے کہ اگر ایک پٹواری کل وقتی کام کرتے ہوئے روزانہ پانچ مربع جات کا سروے بھی مکمل کرے تو اس کام کے لیے اسے 120سے 180 دن درکار ہوتے ہیں لیکن حکومت چونکہ جلد ی میں ہوتی ہے اس لئے 30سے35دنوں کے اندر ہی پٹواری سے جامع فہرستیں طلب کرتی ہے تاکہ گندم خریداری مہم کو آگے بڑھایا جاسکے۔
اتنے مختصر وقت میں وسیع و عریض رقبے کی گرداوری کاکام انسانی بساط سے باہرہے۔تو پھرفرداً فرداً سروے کی بجائے پٹواری حضرات شارٹ کٹ طریقوں سے فہرستیں مرتب کرکے سرکاری احکامات کی بجاوری کر لیتے ہیں۔اول۔۔۔ تو پٹواری موقع پر جاتے ہی نہیں ہیں وہ پرانی لسٹوں کو نکالتے ہیں اور انہیں سامنے رکھ کر نئی لسٹیں تیار کر لیتے ہیں۔بفرضِ محال۔۔۔ اگر وہ دیہات میں چلے بھی جائیں تو گاؤں کے نمبردار یا کسی علاقہ معزز کے ڈیرے پر بیٹھ کر محتاط اندازے کے ذریعے فہرستیں مرتب کرلی جاتی ہیں۔
اس طرح سے مرتب ہونے والی فہرستیں غلطیوں سے مبّرا کیسے ہوسکتی ہیں۔بہت سے حقیقی کاشتکاروں کے نام فہرستوں میں درج ہونے سے رہ جاتے ہیں۔زیادہ تر کاشتکار جن کے نام فہرستوں میں درج ہوتے ہیں ان کے کل کاشتہ رقبے کااندارج درست نہیں ہوتا۔ لہٰذا ایک غلطی تو وہ ہے جوشارٹ کٹ طریقوں کی وجہ سے سرزد ہوتی ہے جبکہ دوسری غلطی وہ ہے جو جان بوجھ کر کی جاتی ہے۔ایسے ایسے لوگوں کے نام فہرستوں میں نظر آتے ہیں جن کا کاشتکاری سے دور دور تک کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ آڑھتی او ربیوپاری اپنے نام ان فہرستوں میں داخل کروانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تاکہ وقت آنے پر کاروباری مقاصد کے لیے باردانے کا حصول ممکن بناکر اس مہم سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔
یہ فہرستیں جنہیں اب سرکاری طور پر ہر لحاظ سے مکمل کہا جاتا ہے، تصدیق کے لیے اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر بھیج دی جاتی ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر کا دفتر ان لسٹوں پر تصدیقی دستخط ثبت کرکے انہیں گندم خریداری سنٹر کے انچارج کے پاس بھیج دیتا ہے۔
مہم کا دوسرا مرحلہ وہ ہے جس میں کاشتکار باردانہ وصول کرنے گندم خریداری سنٹر جاتا ہے۔ 
وہاں کا ماحول کچھ اس طرح کا ہے کہ کسی شریف آدمی کا وہاں سے باردانے کا حصول تقریباً ناممکن ہے۔ اگر آپ کا نام گرداوری فہرست میں درج نہیں ہے تو آپ زیادہ سے زیادہ اسسٹنٹ کمشنر کو درخواست دے سکتے ہیں لیکن مداوا ممکن نہیں۔
اگر خوش قسمتی سے آپ کا نام لسٹ میں شامل ہے تو باردانے کے حصول کے لیے درخواست لکھ کر اپنی فائل سنٹر انچارج کو جمع کروانا پڑتی ہے۔ جہاں سے پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیادپر ایک ترجیحی لسٹ مرتب ہوتی ہے جس کے مطابق نمبروار باردانہ جاری کیا جاتاہے۔
اس ترجیحی لسٹ کے مطابق باردانہ کم ہی جاری ہوتا ہے ۔کئی طرح کے سیاسی، سرکاری وغیر سرکاری عناصر اس فہرست پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ ایک زراعت آفیسر نے ہر طرح کے اثرات کو قبول کرنے سے انکار کیا تو تین دن میں اس کا تبادلہ کردیا گیا۔میں نہیں جانتا کہ زراعت آفیسرز کے اس طرح کے تبادلے کون کرتا ہے۔ اگر اس کا ذمہ دار ڈسٹرکٹ آفیسر(توسیع) ہے تو آپ نیچے والے(ماتحت) عملے سے کیا توقع رکھیں گے۔
اگرآپ گندم خریداری سنٹر کا مشاہدہ کریں تو کھینچا تانی کا ایک عجیب منظر نظرآتا ہے۔ سینکٹروں سائل فائلیں تھامے اپنی باری کی امید پر انتظار کی طویل مشقت اٹھاتے ہیں۔اگر آپ کو خوشی قسمتی سے باردانہ مل گیا تو آپ اسے گندم سے بھر کردوبارہ خریداری سنٹر آپہنچتے ہیں جہاں سے اس مہم کے تیسرے مرحلے کا آغاز ہوتا ہے۔
اگر آپ عام کسان ہیں تو آپ کی باری آنے میں دو دن بھی لگ سکتے ہیں۔نہ جانے دو دن تک ٹریکٹر ٹرالی کا کرایہ ا یک عام کسان کس طرح برداشت کرتا ہوگا۔
باری آنے پر آپ محکمہ فوڈ کے عملے کا سامنا کرتے ہیں جو عام کسانوں کی گندم کو غیر معیاری قرار دے کر کٹوتی کرنے کا ماہر ہے۔اگر آپ کے ہاتھ ذرا تگڑے ہیں او رآپ طریقہ کار سے واقف ہیں تو آپ کا بیڑا پار ہے۔ یوں سمجھئے کہ جیسے ہی گندم آپ بوریوں میں بھر کرلائیں گے وہ ہر طرح کی جانچ پڑتال سے بخوبی پاس ہوکر کنڈے تک پہنچ جائے گی۔
جس کسان کی گندم محکمہ فوڈ ناقص قرار دے کر کٹوتی کرلیتاہے اس بیچارے کی فی من ایک ڈیڑھ سورپیہ بچانے کی تمام محنت برباد ہوجاتی ہے اور خریداری مرکز و منڈی کا حساب برابر ہوجاتا ہے۔
اس مہم کے آخری مرحلے میں آپ کی گندم وصول کرکے آپ کو ایک بل دے دیا جاتا ہے جس کی تصدیق کے بعد آپ متعلقہ بنک سے رقم وصول کرسکتے ہیں۔قانونی طور پر یہ رقم اس کاشتکار کے اکاؤنٹ میں جمع ہوسکتی ہے جس کے نام گندم خریداری سنٹر نے بل جاری کیا ہوتاہے لیکن یہاں بھی مڈل مین اور آڑھتی اپنے طاقتور ہاتھوں کا کمال دکھاتا ہے۔ سٹیٹ بنک کی ہدایات کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے کاشتکاروں کے نام جاری ہونے والی بل دھڑا دھڑ بیوپاریوں و آڑھتیوں کے اکاؤنٹس میں منتقل ہورہے ہیں۔
مڈل مین کے اکاؤنٹس میں پیسے کی منتقلی کے ساتھ ہی اس گندم خریداری مہم کا اختتام ہوجاتاہے جس کی شروعات گرداوری سے ہوتی ہے۔
اگر سرکاراس مہم کو آئندہ سالوں میں شفاف دیکھنا چاہتی ہے تو کم ازکم 10فیصد گندم خریداری سنٹر منتخب کرکے دوکام کیے جائیں۔
(1 گرداوری کے نتیجے میں بننے والی فہرستوں کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے اور ان عناصر کی نشاندہی کی جائے جو حقیقی کاشتکار نہیں ہے لیکن کاروباری مقاصد کے لیے اپنے نام فہرستوں میں درج کرواتے ہیں۔
(2 ان تمام بلوں کی جانچ پڑتال کی جائے جو ایک شخص کے نام جاری ہوئے اور دوسرے نام کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے۔ جو لوگ اس ہیرا پھیری میں ملوث پائے جائیں ان کو سخت سزائیں دی جائیں۔
یہ دونوں کام کرنے سے مڈل مین اور آڑھتی دھرے جائیں گے اور گندم خریداری مہم کو اپنے کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کی سخت حوصلہ شکنی ہوگی۔بصورتِ دیگر جس بیوپاری نے اس سال 30لاکھ روپیہ کمایا ہے وہ اگلے سال 60لاکھ کمانے کی منصوبہ بندی کرے گا اور شفافیت کا نعرہ دھرے 
کا دھرا رہ جائے گا۔
  یہ کالم روزنامہ نظائر لاہور میں شائع ہوا

Comments

Popular posts from this blog

دنیا میں آلوؤں کی 5000 اقسام پائی جاتی ہیں

دھان کی پیداوار 150 من فی ایکڑ مگر کیسے؟

جنیاں تن میرے نوں لگیاں ۔ ۔ ۔ ۔ تینوں اک لگے تے توں جانے