فلسطین لہو لہو ہے۔ ۔ ۔ انسانی حقوق کے علمبردارو کن بِلوں میں جا گھسے ہو؟

بین الاقوامی میڈیا تو خیر سے اسرائیل کے گھڑے کی مچھلی ہے۔ میں اس کی تو بات ہی نہیں کر رہا ہوں ۔
 میرا سوال تو پاکستان میں پھلنے پھولنے والے اُس ٹولے سے ہے جن کا کاروبار انسانی حقوق اور لبرل ازم کے نعرے پر چلتا ہے۔
وہ لوگ جو ایک ملالہ کے لئے بلوں سے نکل آئے تھے، آج ان کا فلسطین میں  مرنے والے بچوں اور عورتوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟
 وہ لوگ جو مختاراں مائی کی عزت بچانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے، ان کا فلسطین کی عورتوں کے تقدس کے بارے میں کیاکہنا ہے؟
 یوں لگتا ہے جیسے خواتین اور انسانیت کے ٹھیکیداروں کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ ذرا خبر ہو کہ وہ لوگ جو آئے دن میڈیا کے جھرمٹ میں کسی پر رونق چوک میں شمعیں روشن کر رہے ہوتے ہیں کدھر گئے؟
طالبان کی وحشت کے خلاف فائیو سٹار ہوٹلوں میں جلسے کرنے والے،اسرائیلی وحشت کے خلاف ایک آدھ سیمینار ہی کر ڈالیں۔
میں واقعی حیران ہوں کہ ٹی وی پر بیٹھ کر پوری قوم کو انسانیت اور انسانی حقوق کا سبق دینے والے کیا صرف اور صرف فصلی بٹیرے ہیں۔
کسی ایک خاتون کی مرضی کے خلاف شادی پر پورے کا پورا پاکستان سر پر اٹھانے والے برساتی مینڈک آج ٹراتے کیوں نہیں۔
وہ لوگ جو ہمیں بتاتے ہیں کہ ہندوستان کی سر زمین پرتو ہندوں کا حق ہے، مسلمان تو یہاں قابض ہیں ان کی تاریخی دانش اسرایئلی ریاست کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
وہ جو ہمیں یہ جانکاری دیتے ہیں کہ محمود غزنوی تو ایک لٹیرا تھا، جو بندے مارنے اور پیسا لوٹنے کے لئے حملہ آور ہوتا تھا ان کا نہتے فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے کا بارے میں کیا رائے ہیں؟
وہ جو فرماتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے طرز عمل کی وجہ سے پاکستان پوری دنیا میں بدنام ہے، ان سے پوچھا جائے کہ یہودیت اور یہودیوں کے طرز عمل کی وجہ سے اسرائیل کی بھی کوئی بدنامی ہو رہی ہے یا نہیں؟
وہ جو مذہب کو افیون قرار دے کر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں وہ یہودیوں کا مذاق کیوں نہیں اڑاتے ۔
اسلام آباد میں پنپنے والے تھنک ٹینک اسرائیلی وحشت کے خلاف ایک آدھ بیان ہی جاری کر دیں۔ 
آخر مصلحت کیا ہے؟
میرے دوست خواتین اور انسانی حقوق کے علمبردا کوئی میرے اور آپ کی طرح بے وقوف تھوڑی ہیں ۔ 
یہ بڑے سمجھدار لوگ ہیں بھائی۔
یہ ہماری طرح جذبات کا کاربار نہیں کرتے بلکہ یہ کاروباری لوگ ہیں۔
انہیں معلوم ہے کہ بین الاقوامی منڈی میں کیا بکتا ہے۔ یہ لوگ مارکیٹ میں وہی سودا لاتے ہیں جسکے اچھے دام لگ سکیں۔
انہیں معلوم تھا کہ ملالہ اور مختاراں مائی جیسے پراڈکٹ کی عالمی منڈی میں بڑی مانگ ہے۔ 
پاکستان میں انسانی حقوق خصوصا نسوانی حقوق کی خلاف ورزی پر شور مچانے کا بھی اچھا نفع ملتا ہے۔ 
ملک میں مذہبی انتہا پسندی جیسا موضوع بھی دنیا میں ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے۔ مذہب، خصوصا اسلام سے بیزاری کے ذریعے بھی آپ بین الاقوامی گاہکوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
جہاں تک فلسطین اور فلسطینیوں کے حقوق پر آواز اٹھانے کا تعلق ہے ارے بھئی یہ تو سرا سر گھاٹے کا سودا ہے۔
 یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ یہ انسانی حقوق والوں نے ہونٹ سی لئے ہیں۔
ایسا کرنے میں سب سے پہلےتو آپ پر پرو اسلام کا ٹھپہ لگے گا جو آپ کے کاروبار کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔
عالمی منڈی میں آپ کی ساکھ کو سخت دھچکا لگے گا اور آپ پر بین الا قوامی فنڈنگ کے دروازے بند ہو سکتے ہیں۔
ویسے بھی فلسطینی عوام کے حقوق پر بات کرنے کا ایجنڈا بین الاقوامی ڈونرز کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔
اب آپ کو عالمی براری اس کام کے لئے تو پیسہ نہیں دے سکتی کہ آپ فائیو سٹار ہوٹلوں میں اسرائیل کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے پھریں۔
یا آپ لوگوں کو اکھٹا کر کے فلسطینوں کے حق میں شمعیں روشن کرتے پھریں اور دنیا کو باور کرواتے پھریں کہ اسرائیل بڑا ظالم ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردارو ۔۔۔۔۔۔۔ جے تُسی سیانے او تے دنیا وی بڑی سیانی ایں ۔ ۔  اگر فلسطینیوں کے حقوق پر بات کرنی ہے تو اپنی جیب سے پیسا لگاو ۔۔۔۔ 
لیکن اگر جیب سے پیسا نہیں لگا سکتے تو وقت کا تقاضا یہی ہے کہ آپ بلوں میں گھسے بیٹھے رہیں ۔ ۔ ۔ ۔ جماعتِ اسلامی ہے نہ احتجاج کرنے کو۔ ۔ ۔ ۔ 

Comments

  1. Product best fit for urdu akhbar...Kash mein Zia kay zamanay ka akhbar parh sakta magar us waqt hosh nahi thee thanks to Shoukat sb for bringing the era back :)

    ReplyDelete
  2. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  3. I love this piece of writing dear Sir.............

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

دنیا میں آلوؤں کی 5000 اقسام پائی جاتی ہیں

دھان کی پیداوار 150 من فی ایکڑ مگر کیسے؟

جنیاں تن میرے نوں لگیاں ۔ ۔ ۔ ۔ تینوں اک لگے تے توں جانے