اشعار




زباٰں سے لفظ نکلتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں

خیال دل میں مچلتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں

یہ کیسی آب و ہوا ہے جہاں یہ گرگٹ تک
طبیعی رنگ بدلتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں

ہمارے شہر میں گرنا تو خیر واقعہ ہے
یہ لوگ گر کے سنبھلتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں


-------------------------------------------------

یہ کاروبار یہاں پر تو عام ہے میرے دوست

سفید جھوٹ منافعے کا کام ہے میرے دوست




نظیر لا کے دکھائیے ہماری پستی کی 
یہ ذاتی کام ہے اور اس میں نام ہے میرے دوست


--------------------------------------------------------


کسی کے ہونٹ پہ رکھی ہوئی صدا تو ہے

یہ تُو نہیں ہے، اگرچہ ہوا ادا تو ہے

یہ دل فریب زدہ راہ پہ بھٹکتا ہوا 
اور اس فریب زدہ رِہ کی ابتدا تو ہے

وہ جن کی وجہ سے برباد ہے یہ سارا چمن
وہ ایک شخص تو میں ہی ہوں دوسرا تو ہے


------------------------------------------------------

 حضور اپنا تو ایسا کوئی ارادہ نہیں

مجھے خبر ہے وہ احباب اتنے سادہ نہیں

اکرشہ شہر میں کمیاب ہے یہ جنسِ گراں
مگر ہماری طلب بھی تو کچھ زیادہ نہیں

وہ جس کو زور سے آنکھوں پہ کھینچ لیں کے آپ
یہ شرم تو کوئی پتلون کا لبادہ نہیں


-------------------------------------------------

Comments

Popular posts from this blog

دنیا میں آلوؤں کی 5000 اقسام پائی جاتی ہیں

دھان کی پیداوار 150 من فی ایکڑ مگر کیسے؟

جنیاں تن میرے نوں لگیاں ۔ ۔ ۔ ۔ تینوں اک لگے تے توں جانے